قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ الدَّلِيلِ عَلَى دُخُولِ طَوَائِفَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ وَلَا عَذَابٍ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

220. حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ رَأَى الْكَوْكَبَ الَّذِي انْقَضَّ الْبَارِحَةَ؟ قُلْتُ: أَنَا، ثُمَّ قُلْتُ: أَمَا إِنِّي لَمْ أَكُنْ فِي صَلَاةٍ، وَلَكِنِّي لُدِغْتُ، قَالَ: فَمَاذَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: اسْتَرْقَيْتُ، قَالَ: فَمَا حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ؟ قُلْتُ: حَدِيثٌ حَدَّثَنَاهُ الشَّعْبِيُّ فَقَالَ: وَمَا حَدَّثَكُمُ الشَّعْبِيُّ؟ قُلْتُ: حَدَّثَنَا عَنْ بُرَيْدَةَ بْنِ حُصَيْبٍ الْأَسْلَمِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: لَا رُقْيَةَ إِلَّا مِنْ عَيْنٍ، أَوْ حُمَةٍ، فَقَالَ: قَدْ أَحْسَنَ مَنِ انْتَهَى إِلَى مَا سَمِعَ، وَلَكِنْ حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " عُرِضَتْ عَلَيَّ الْأُمَمُ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ الرُّهَيْطُ، وَالنَّبِيَّ وَمَعَهُ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ، وَالنَّبِيَّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، إِذْ رُفِعَ لِي سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ أُمَّتِي، فَقِيلَ لِي: هَذَا مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَوْمُهُ، وَلَكِنْ انْظُرْ إِلَى الْأُفُقِ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَقِيلَ لِي: انْظُرْ إِلَى الْأُفُقِ الْآخَرِ، فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَقِيلَ لِي: هَذِهِ أُمَّتُكَ وَمَعَهُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ وَلَا عَذَابٍ "، ثُمَّ نَهَضَ فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ فَخَاضَ النَّاسُ فِي أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ وَلَا عَذَابٍ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: فَلَعَلَّهُمُ الَّذِينَ صَحِبُوا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: فَلَعَلَّهُمُ الَّذِينَ وُلِدُوا فِي الْإِسْلَامِ وَلَمْ يُشْرِكُوا بِاللهِ، وَذَكَرُوا أَشْيَاءَ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مَا الَّذِي تَخُوضُونَ فِيهِ؟» فَأَخْبَرُوهُ، فَقَالَ: «هُمُ الَّذِينَ لَا يَرْقُونَ، وَلَا يَسْتَرْقُونَ، وَلَا يَتَطَيَّرُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ»، فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ، فَقَالَ: " ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ: «أَنْتَ مِنْهُمْ؟» ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ: «سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ».

مترجم:

220.

ہشیم نے کہا: ہمیں حصین بن عبد الرحمن نے خبر دی، کہا: کہ میں سعید بن جبیر کے پاس موجود تھا، انہوں نے پوچھا: تم میں سے وہ  ستارا کس نے دیکھا تھا جو کل رات ٹوٹا تھا؟ میں نے کہا: میں نے، پھر میں نے کہا: کہ میں نماز میں نہیں تھا، بلکہ مجھے ڈس لیا گیا تھا (کسی موذی جانور نے ڈس لیا تھا۔) انہوں نے پوچھا: پھر تم نے کیا کیا؟ میں نے کہا:میں نے دم کروایا۔ انہوں نےکہا: تمہیں کس چیز نےاس پر آمادہ کیا؟ میں نے جواب دیا: اس حدیث نے جو ہمیں شعبی نے سنائی۔ انہوں نے پوچھا: شعبی نے تمہیں کون سی حدیث سنائی؟ میں نے کہا: انہوں (شعبی) نےہمیں بریدہ بن حصیب اسلمی ؓ سے روایت سنائی، انہوں نے بتایا: کہ نظر بد لگنے اور زہریلی چیز کےڈسنے کے علاوہ اور کسی چیز کے لیے جھاڑ پھونک نہیں۔ تو سعید نے کہا: جس نے سنا، اسے اختیار کیا تو اچھا کیا، لیکن ہمیں عبد اللہ بن عباس ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے حدیث سنائی، کہ آپ نے فرمایا: ’’میرے سامنے امتیں پیش کی گئیں، میں نے ایک نبی کو دیکھا، ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا (دس سے کم کا) گروہ تھا، کسی (اور) نبی کو دیکھا، کہ اس کےساتھ ایک یا دو امتی تھے، کوئی نبی ایسا بھی تھا، کہ اس کے ساتھ کوئی امتی نہ تھا۔ اچانک ایک بڑی جماعت میرے سامنے لائی گئی، مجھے گمان ہوا،  کہ یہ میرے امتی ہیں، اس پر مجھ سے کہا گیا: کہ یہ موسیٰؑ اور ان کی قوم ہے، لیکن آپ افق کی طرف دیکھیں! میں نے دیکھا تو (وہاں بھی) ایک بہت بڑی جماعت تھی، مجھے بتایا گیا کہ: یہ آپ کی امت ہے، اور ان کےساتھ ایسے ستر ہزار (لوگ) ہیں جو کسی حساب کتاب اور کسی عذاب کے بغیر جنت میں داخل ہو جائیں گے۔‘‘ پھر آپ  ﷺ  اٹھے اور ا پنے گھر کے اندر چلے گئے، وہ (صحابہ کرامؓ) ان لوگوں کے بارے میں گفتگو میں مصروف ہو گئے، جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ ان میں سے بعض نے کہا: شاید وہ لوگ ہیں، جنہیں رسول اللہ ﷺ کی صحبت کا شرف حاصل ہے۔ بعض نے کہا: شاید یہ لوگ وہ ہوں گے، جو اسلامی دور میں پیدا ہوئے اور (ایک لمحہ بھی) اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کیا، اور انہوں نے بعض دوسری باتوں کا بھی تذکرہ کیا۔ پھر (کچھ دیربعد) رسول اللہ ﷺ (گھر سے) نکل کر ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: ’’ تم کن باتوں میں لگے ہوئے ہو؟‘‘ انہوں نے آپ کو وہ باتیں بتائیں، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ ایسے لوگ ہیں جو نہ دم کرتے ہیں، نہ دم کرواتے ہیں، نہ شگون لیتے ہیں اور وہ اپنے رب پر پوراتوکل کرتے ہیں۔‘‘ اس پر عکاشہ بن محصنؓ  کھڑے ہوئے اور عرض کی: اللہ سے دعا فرمائیے! کہ وہ مجھے بھی ان لوگوں میں (شامل) کر دے، تو   آپ ﷺنے فرمایا: ’’تو ان میں سے ہے۔‘‘ پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: دعا فرمائیے! اللہ مجھے (بھی) ان میں سے کردے، تو آپ نے فرمایا: ’’عکاشہ اس (فرمائش) کے ذریعے سے تم سے سبقت لے گئے۔‘‘