قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ بَيَانِ كَوْنِ النَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ مِنَ الْإِيمَانِ، وَأَنَّ الْإِيمَانَ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ، وَأَنَّ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاجِبَانِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

49. حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ كِلَاهُمَا، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ - وَهَذَا حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ - قَالَ: أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَةِ يَوْمَ الْعِيدِ قَبْلَ الصَّلَاةِ مَرْوَانُ. فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: الصَّلَاةُ قَبْلَ الْخُطْبَةِ، فَقَالَ: قَدْ تُرِكَ مَا هُنَالِكَ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ».

صحیح مسلم:

کتاب: ایمان کا بیان

تمہید کتاب (باب: برائی سے روکنا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان گھٹتا بڑھتا ہے ، نیز نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا فرض ہے)

مترجم: ١. پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری (دار السلام)

49.

ابو بکر بن ابی شیبہؒ  نے کہا: ہمیں وکیعؒ نے سفیانؒ سے حدیث سنائی، نیز محمد بن مثنیٰؒ نے کہا: ہمیں محمد بن جعفرؒ نے اورانہیں شعبہؒ نے حدیث سنائی، ان دونوں (سفیانؒ اور شعبہؒ) نے قیس بن مسلمؒ سے اور انہوں نے طارق بن شہابؒ سے روایت کی، الفاظ ابو بکر بن ابی شیبہؒ کے ہیں۔  طارق بن شہابؒ نے کہا کہ پہلا شخص جس نے عید کے دن نماز سے پہلے خطبے کا آغاز کیا، مروان تھا۔ ایک آدمی اس کے سامنے کھڑا ہو گیا اور کہا: ’’نماز خطبے سے پہلے ہے؟‘‘ مروان نے جواب دیا: جو طریقہ (یہاں پہلے) تھا، وہ ترک کر دیا گیا ہے۔ اس پر ابو سعیدؓ نے کہا: اس انسان نے (جس سے صحیح بات کہی تھی) اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ (ﷺ) فرما رہے تھے: ’’تم میں سے جوشخص منکر (ناقابل قبول کام ) دیکھے، اس پر لازم ہے کہ اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے، اوراگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے (اسے برا سمجھے اور اس کے بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔‘‘