قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الزَّكَاةِ (بَابُ إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

987. و حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا حَفْصٌ يَعْنِي ابْنَ مَيْسَرَةَ الصَّنْعَانِيَّ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ أَنَّ أَبَا صَالِحٍ ذَكْوَانَ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ وَلَا فِضَّةٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ فَأُحْمِيَ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وَجَبِينُهُ وَظَهْرُهُ كُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِيدَتْ لَهُ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْإِبِلُ قَالَ وَلَا صَاحِبُ إِبِلٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا وَمِنْ حَقِّهَا حَلَبُهَا يَوْمَ وِرْدِهَا إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ أَوْفَرَ مَا كَانَتْ لَا يَفْقِدُ مِنْهَا فَصِيلًا وَاحِدًا تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَعَضُّهُ بِأَفْوَاهِهَا كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْبَقَرُ وَالْغَنَمُ قَالَ وَلَا صَاحِبُ بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ لَا يَفْقِدُ مِنْهَا شَيْئًا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلَا جَلْحَاءُ وَلَا عَضْبَاءُ تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَى النَّارِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْخَيْلُ قَالَ الْخَيْلُ ثَلَاثَةٌ هِيَ لِرَجُلٍ وِزْرٌ وَهِيَ لِرَجُلٍ سِتْرٌ وَهِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ فَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ وِزْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا رِيَاءً وَفَخْرًا وَنِوَاءً عَلَى أَهْلِ الْإِسْلَامِ فَهِيَ لَهُ وِزْرٌ وَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ سِتْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ فِي ظُهُورِهَا وَلَا رِقَابِهَا فَهِيَ لَهُ سِتْرٌ وَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فِي مَرْجٍ وَرَوْضَةٍ فَمَا أَكَلَتْ مِنْ ذَلِكَ الْمَرْجِ أَوْ الرَّوْضَةِ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا كُتِبَ لَهُ عَدَدَ مَا أَكَلَتْ حَسَنَاتٌ وَكُتِبَ لَهُ عَدَدَ أَرْوَاثِهَا وَأَبْوَالِهَا حَسَنَاتٌ وَلَا تَقْطَعُ طِوَلَهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ عَدَدَ آثَارِهَا وَأَرْوَاثِهَا حَسَنَاتٍ وَلَا مَرَّ بِهَا صَاحِبُهَا عَلَى نَهْرٍ فَشَرِبَتْ مِنْهُ وَلَا يُرِيدُ أَنْ يَسْقِيَهَا إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ عَدَدَ مَا شَرِبَتْ حَسَنَاتٍ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْحُمُرُ قَالَ مَا أُنْزِلَ عَلَيَّ فِي الْحُمُرِ شَيْءٌ إِلَّا هَذِهِ الْآيَةَ الْفَاذَّةُ الْجَامِعَةُ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ

مترجم:

987.

حفص بن میسرہ صنعانی نے زید بن اسلم سے حدیث بیان کی کہ ان کو ابو صالح ذکوان نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو بھی سونے اور چاندی کا مالک ان میں سے (یا ان کی قیمت میں سے) ان کا حق (زکاۃ) ادا نہیں کرتا تو جب قیامت کا دن ہو گا (انھیں) اس کے لئے آگ کی تختیاں بنا دیا جائے گا اور انھیں جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور پھر ان سے اس کے پہلو، اس کی پیشانی اور اس کی پشت کو داغا جائےگا، جب وہ (تختیاں) پھر سے (آگ میں) جائیں گی، انھیں پھر سے اس کے لئے واپس لایا جائےگا، اس دن جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے (یہ عمل مسلسل ہوتا رہے گا) حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا، پھر وہ جنت یا دوزخ کی طرف اپنا راستہ دیکھ لےگا۔‘‘ آپ ﷺ سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! اونٹوں کا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی اونٹوں کا مالک نہیں جو ان کا حق ادا نہیں کرتا اور ان کا حق یہ بھی ہے کہ ان کو پانی پلانے کے دن (ضرورت مندوں اور مسافروں کےلئے) ان کا دودھ نکالا جائے، اور جب قیامت کا دن ہو گا اسے (مالک) ایک وسیع چٹیل میدان میں ان (اونٹوں) کے سامنے بچھا (لٹا) دیا جائے گا، وہ (اونٹ دنیا میں تعداد اور فربہی کے اعتبار سے) جتنے زیادہ سے زیادہ وافر تھے اس حالت میں ہوں گے، وہ ان میں سے دودھ چھڑائے ہوئے ایک بچے کو بھی گم نہیں پائے گا، وہ اسے اپنے قدموں سے روندیں گے اور اپنے منہ سے کاٹیں گے، جب بھی ان میں سے پہلا اونٹ اس پر سے گزر جائےگا تو دوسرا اس پر واپس لے آیا جائے گا، یہ اس دن میں (بار بار) ہو گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہو گی، یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہو جائےگا اور اسے جنت یا دوزخ کی طرف اس کا راستہ دیکھایا جائے گا۔ آپ ﷺ سے عر ض کی گئی: اللہ کے رسول ﷺ! تو گائے اور بکریاں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اور نہ گائے اور بکریوں کا کوئی مالک ہو گا جو ان کا حق ادا نہیں کرتا، مگر جب قیامت کا دن ہوگا تو اسے ان کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بچھایا (لِٹایا) جائے گا۔ وہ ان میں سے کسی ایک (جانور) کو بھی گم نہیں پائےگا۔ ان میں کوئی (گائے یا بکری) نہ مڑے سینگوں والی ہو گی، نہ بغیر سینگوں کے اور نہ ہی کوئی ٹوٹے سینگوں والی ہو گی (سب سیدھے تیز سینگوں والی ہوں گی) وہ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے سمو سے روندیں گی، (یہ معاملہ) اس دن میں (ہو گا) جو پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا، جب پہلا (جانور) گزر جائے گا تو ان کا دوسرا (جانور واپس) لے آیا جائے گا حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا، اور اسے جنت یا دوزخ کی طرف اس کا راستہ د یکھایا جائے گا۔‘‘ عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول ﷺ! تو گھوڑے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’گھوڑے تین طرح کے ہیں: وہ جو آدمی کے بوجھ ہیں، دوسرے وہ جو آدمی کے لئے ستر (پردہ پوشی کا باعث) ہیں۔ تیسرے وہ جو آدمی کے لئے اجر وثواب کا باعث ہیں۔ بوجھ اور گناہ کا باعث وہ گھوڑے ہیں جن کو ان کا مالک ریاکاری، فخر وغرور اور مسلمانوں کی دشمنی کے لئے باندھتا ہے تو یہ گھوڑے اس کے لئے بوجھ (گناہ ) ہیں۔ اور وہ جو اسکے لئے پردہ پوشی کا باعث ہیں تو وہ (اس) آدمی (کے گھوڑے ہیں) جس نے انھیں (موقع ملنے پر) اللہ کی راہ میں (خود جہاد کرنے کے لئے) باندھ رکھا ہے، پھر وہ ان کی پشتوں اور گردنوں میں اللہ کے حق کو نہیں بھولا تو یہ اس کے لئے باعث ستر ہیں (چاہے اسے جہاد کا موقع ملے یا نہ ملے) اور وہ گھوڑے جو اس کے لئے اجر وثواب کا باعث ہیں تو وہ (اس ) آدمی (کے گھوڑے ہیں) جس نے انھیں اللہ کی راہ میں اہل اسلام کی خاطر کسی چراگاہ یا باغیچے میں باندھ رکھا ہے (اور وہ خود جہاد پر جا سکے یا نہ جا سکے انھیں دوسروں کو جہاد کے لئے دیتا ہے) یہ گھوڑے اس چراگاہ یا باغ میں سے جتنا بھی کھائیں گے تو اس شخص کے لئے اتنی تعداد میں نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور اس شخص کے لئے ان کی لید اور پیشاب کی مقدار کے برابر (بھی ) نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور وہ گھوڑے اپنی رسی تڑوا کر ایک دو ٹیلوں کی دوڑ نہیں لگائیں گے مگر اللہ تعالیٰ ا س شخص کےلئے ان کے قدموں کے نشانات اور لید کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھ دے گا اور نہ ہی ان کا مالک انھیں لے کر کسی نہر پر سے گزرے گا اور وہ گھوڑے اس نہر میں سے پانی پیئں گے جبکہ وہ (مالک) ان کو پانی پلانا (بھی) نہیں چاہتا مگر اللہ تعالیٰ اس شخص کے لئے اتنی نیکیاں لکھ دے گا جتنا ان گھوڑوں نے پانی پیا۔‘‘ عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول ﷺ !اور گدھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھ پر گدھوں کے بارے میں اس منفرد اور جامع آیت کے سوا کوئی چیز نازل نہیں کی گئی:  ﴿فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ةٍ خَيْرً‌ا يَرَ‌هُ﴾ ﴿وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ةٍ شَرًّ‌ا يَرَ‌هُ ﴾  ’’جو کوئی ایک ذرے کی مقداار میں نیکی کرے گا (قیامت کے دن) اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ایک ذرے کے برابر بُرائی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔‘‘