تشریح:
(1) آخری عبارت کا مطلب یہ نہیں کہ حجراسود کے بوسے کے بعد احرام کھول دیتے تھے بلکہ طواف کرنے کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے، پھر سر منڈوا کر احرام کھولتے تھے۔ حضرت عروہ سے مروی یہ حدیث دراصل ایک سوال کا جواب ہے کہ محمد بن عبدالرحمٰن سے ایک عراقی نے کہا کہ تم حضرت عروہ بن زبیر سے دریافت کرو: اگر ایک شخص حج کا احرام باندھے تو کیا بیت اللہ کا طواف کر کے حلال ہو سکتا ہے؟ اگر وہ کہیں کہ نہیں تو ایک شخص (عبداللہ بن عباسؓ ) کے حوالے سے کہنا کہ ان کے نزدیک تو حلال ہو جاتا ہے، چنانچہ محمد بن عبدالرحمٰن نے جب سوال کیا تو حضرت عروہ نے فرمایا: جب کوئی حج کا احرام باندھے تو جب تک وہ حج سے فارغ نہ ہو جائے حلال نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد یہ حدیث بیان کی۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3001(1235)) (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ طواف کرتے وقت انسان کو باوضو ہونا چاہیے۔ لیکن اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ایک فعل ذکر ہوا ہے جو وجوب پر دلالت نہیں کرتا، اس بنا پر طواف کے لیے وضو کو واجب یا شرط قرار دینا صحیح نہیں۔ اس کا حافظ ابن حجر ؒ نے بایں الفاظ جواب دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اس عمل کو آپ کے فرمان کی روشنی میں دیکھا جائے۔ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: ’’مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو۔‘‘ (سنن الکبریٰ للبیھقي:125/5) اس امر کے تحت جتنے بھی افعال ہوں گے وہ سب واجب ہوں گے۔ (فتح الباري: 627/3) اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو ہمارے لیے نمونہ بنا کر مبعوث کیا ہے، اس لیے آپ کے زندگی بھر کے تمام کام ہمارے لیے نمونہ ہیں، اس کی تقسیم کہ فلاں کام ضروری ہے اور فلاں غیر ضروری یہ سب فقہاء کی باتیں ہیں، جنہیں بعد میں ایجاد کیا گیا ہے۔ واللہ أعلم