تشریح:
1۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ادائے فرض میں سستی اور غفلت کوئی معمولی چیز نہیں بلکہ بسااوقات انسان سستی اور غفلت کے وقت کسی ایسے قصور کا مرتکب ہوجاتا ہے جس کا شمار بڑے گناہوں میں ہوتا ہے، نیز اس سے پتہ چلتا ہے کہ کفرواسلام کی کشمکش کا معاملہ کس قدر نزاکت کاحامل ہے، اس میں کفر کا ساتھ دینا تو درکنار جو شخص اسلام کا ساتھ دینے میں کسی ایک موقع پر بھی کوتاہی برت جاتا ہے اس کی بھی زندگی بھر کی عبادت گزاریاں خطرے میں پڑجاتی ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے حسن بصری ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھوں نے کہا:سبحان اللہ! ان تین آدمیوں نے نہ تو مالِ حرام کھایا اور نہ ناحق خون ریزی کی، نہ زمین پر فساد کیا، اس کے باوجود جو مصیبت انھیں پہنچی وہ سب جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی وسیع اور کشادہ زمین ان پر تنگ ہوگئی جو شخص فواحش ومنکرات اور بڑے بڑے گناہوں کا مرتکب ہوا اس کا کیا حال ہوگا، اس لیے ہمیں اپنے طرز ِعمل کے متعلق غوروخوض کرنا ہوگا۔ (فتح الباري:155/8) حضرت کعب بن مالک ؓ اس طرز عمل پر بہت فکر مند تھےجیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ مجھے زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ اگر اسی حالت میں میری وفات ہو گئی تو رسول اللہ ﷺ میری نماز جنازہ نہیں پڑھیں گے یا میری اس حالت کے دوران میں رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوگیا اور لوگوں میں میرا یہی حال رہا تووہ مجھ سے گفتگو نہیں کریں گے اور نہ کوئی اور میرا جنازہ ہی پڑھے گا۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4677) حافظ ابن حجر ؒ حضرت کعب بن مالک ؓ کی قوتِ ایمانی کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں، جب کعب بن مالک ؓ نے غسانی کا خط تنور میں پھینک دیا تو ان کا یہ عمل اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت پر دلالت کرتا ہے بصورت دیگر ایسے موقع پر جب سوشل بائیکاٹ کا یہ عالم ہو کہ سلام و کلام تک بند ہو، کوئی توجہ نہ کرے تو کمزور ایمان والا آدمی بیزار ہو جاتا ہے اورجاہ ومال کی طرف رغبت کرتا ہے۔ انسان ایسے حالات میں اپنے دل سے کہتا ہے کہ بائیکاٹ کرنے والوں کو چھوڑو اور کچھ دن آرام سے گزارو، خاص طور پر جب ایک بادشاہ کی طرف سے امن و خوشحالی کا پیغام پہنچ چکا ہو۔ اس کایہ بھی کہنا کہ تمھیں دین چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا لیکن اس سب کچھ کے باوجود انھوں نے اس پیشکش کو امتحان خیال کیا بلکہ انھوں نے اس خط ہی کو جلا دیا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ اسے کہلا بھیجا: یہ ہے تمہارے اس خط کا جواب۔ اس طرف کسی قسم کے جھکاؤ کا اظہارنہ کیا۔ انھوں نے اس بات کو ثابت کر دکھایا کہ ان کے دل میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے علاوہ کسی دوسرے سے قطعاً کوئی محبت نہیں۔ (فتح الباري:152/8)
2۔ اس طویل حدیث میں اگرچہ تین حضرات کے غزوہ تبو ک سے پیچھے رہ جانے اور ان کی توبہ قبول ہونے کا تفصیلی ذکر ہے، مگر اس سے حافظ ابن حجر ؒ نے بہت سے مسائل کا استنباط فرمایا ہے جن میں سے کچھ حسب ذیل ہیں۔ *۔ اچھی چیز کے ضائع ہوجانے پر افسوس جائز ہے۔ *۔ اہل بدعت سے دور رہنا اور ان سے بچنا چاہیے۔ *۔ کسی سنگین معصیت کے ارتکاب پر بائیکاٹ کرنا جائز ہے حتی کہ بیوی کے قریب نہ جانے کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔ *۔ باہر سے آنے والے کے لیے مستحب ہے کہ وہ گھر جانے سے پہلے مسجد میں آئے اور دورکعتیں پڑھے۔ *۔ نماز میں نظر پھیر کر دیکھنا نماز کو باطل نہیں کرتا، نیز سلام کرنا اور اس کا جواب دینا کلام ہے۔ *۔ جب کاغذ پر اللہ کا نام لکھا ہوتو کسی مصلحت کے پیش نظر اسے جلانا جائزہے۔ *۔ نعمت کے ملنے اور مصیبت کے ختم ہونے پر خوشخبری دینا پسندیدہ امر ہے۔ *۔ آنے والے سے مصافحہ کرنا اور اس کے استقبال کے لیے کھڑا ہونا جائز ہے۔ *۔جس اچھی چیز سے نفع ہو، اس کا التزام ہمیشہ کرنا چاہیے۔ *۔ جو شخص دین میں قوی ہو، اس کا مواخذہ کمزور آدمی کی بانسبت زیادہ سخت ہوتا ہے۔ *۔ ضروری امور میں امام کے پاس اکھٹے ہونا چاہیے اور جس سے امام کے ساتھی خوش ہوں امام کو بھی خوش ہونا چاہیے۔ *۔اشارے کنائے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، ہاں! اگرنیت طلاق دینے کی ہوتو واقع ہوجائے گی۔ *۔قریبی لوگوں کی محبت پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کوترجیح دینا ایمان کاحصہ ہے۔ *۔جس شخص سے شرعی بائیکاٹ ہو اس کے سلام وکلام کا جواب نہ دینا جائز ہے۔