Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: A sick person may perform Tawaf while riding)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1632.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اونٹ پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف کیا۔ آپ جب بھی حجر اسود کے پاس سے گزرتے، اپنے دست مبارک میں پکڑی ہوئی کسی چیز سے اس کی طرف اشارہ کرتے اور اللہ أکبر کہتے تھے۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ آپ طواف کرتے وقت جب حجراسود کے پاس سے گزرتے تو چھڑی سے اس کی طرف اشارہ کرتے۔ بعض روایات میں اس کی صراحت ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سوار ہو کر طواف کرنے میں کوئی ممانعت نہیں بشرطیکہ کوئی عذر ہو۔ (3) امام بخاری نے اس عنوان کے ذریعے سے ایک روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے امام ابوداود نے بیان کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ کی طبیعت ناساز تھی۔ اس بنا پر آپ نے اونٹ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1881) اس سے معلوم ہوا بیت اللہ کا بحالت سواری طواف کرنا مسنون عمل نہیں بلکہ ایک مجبوری کے پیش نظر ایسا کرنے کی گنجائش ہے۔ واضح رہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب مسجد حرام کی چار دیواری نہیں تھی۔ آج کل کسی سواری کو داخل کرنا ممکن نہیں۔ ہاں آدمی کو کندھوں پر اٹھا کر طواف کرایا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس لیے بھی سواری استعمال کی تھی کہ لوگ آپ سے مناسک حج سیکھ لیں جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا تاکہ آپ کو لوگ دیکھیں اور طواف سے متعلقہ مسائل سیکھ سکیں۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3074(1273))
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1588
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1632
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1632
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1632
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اونٹ پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف کیا۔ آپ جب بھی حجر اسود کے پاس سے گزرتے، اپنے دست مبارک میں پکڑی ہوئی کسی چیز سے اس کی طرف اشارہ کرتے اور اللہ أکبر کہتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ آپ طواف کرتے وقت جب حجراسود کے پاس سے گزرتے تو چھڑی سے اس کی طرف اشارہ کرتے۔ بعض روایات میں اس کی صراحت ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سوار ہو کر طواف کرنے میں کوئی ممانعت نہیں بشرطیکہ کوئی عذر ہو۔ (3) امام بخاری نے اس عنوان کے ذریعے سے ایک روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے امام ابوداود نے بیان کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ کی طبیعت ناساز تھی۔ اس بنا پر آپ نے اونٹ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:1881) اس سے معلوم ہوا بیت اللہ کا بحالت سواری طواف کرنا مسنون عمل نہیں بلکہ ایک مجبوری کے پیش نظر ایسا کرنے کی گنجائش ہے۔ واضح رہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب مسجد حرام کی چار دیواری نہیں تھی۔ آج کل کسی سواری کو داخل کرنا ممکن نہیں۔ ہاں آدمی کو کندھوں پر اٹھا کر طواف کرایا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس لیے بھی سواری استعمال کی تھی کہ لوگ آپ سے مناسک حج سیکھ لیں جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا تاکہ آپ کو لوگ دیکھیں اور طواف سے متعلقہ مسائل سیکھ سکیں۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3074(1273))
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق واسطی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد طحان نے خالد حذاء سے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کا طواف اونٹ پر سوار ہوکر کیا۔ آپ جب بھی ( طواف کرتے ہوئے ) حجر اسود کے نزدیک آتے تو اپنے ہاتھ کو ایک چیز ( چھڑی ) سے اشارہ کرتے اور تکبیر کہتے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں گویہ ذکر نہیں ہے کہ آپ ﷺ بیمار تھے اور بظاہر ترجمہ باب سے مطابق نہیں ہے مگر امام بخاری ؒ نے ابوداؤد کی روایت کی طرف اشارہ کیا جس میں صاف یہ ہے کہ آپ بیمار تھے۔ بعضوں نے کہا جب بغیر بیماری یا عذر کے سواری پر طواف درست ہوا تو بیماری میں بطریق اولیٰ درست ہوگا۔ اس طرح باب کا مطلب نکل آیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): Allah's Apostle (ﷺ) performed Tawaf (of the Kaba) ending a camel (at that time the Prophet (ﷺ) had foot injury). Whenever he came to the Corner (having the Black Stone) he would point out towards it with a thing in his hand and say, "Allahu-Akbar."