Sahi-Bukhari:
Hajj (Pilgrimage)
(Chapter: To give religious verdicts while riding an animal)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1738.
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے ایک اور روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس دن اونٹنی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر باقی حدیث ذکر کی۔ معمر بن راشد نے امام زہری ؓ سے بیان کرنے میں صالح بن کیسان کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒنے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے مروی اس حدیث پر قبل ازیں اسی قسم کے دو عنوان قائم کیے ہیں جن کے الفاظ حسب ذیل ہیں: ٭ چوپائے پر بیٹھ کر سوالوں کے جواب دینا۔ ٭ رمی جمار کے وقت سوال و جواب کرنا۔ بظاہر تکرار معلوم ہوتا ہے لیکن شاز و نادر ہی ایسا ہوا ہے۔ (فتح الباري:718/3)واللہ أعلم۔ (2) واضح رہے کہ ان احادیث میں "وَقَفَ" کے معنی کھڑا ہونا نہیں بلکہ سواری پر بیٹھے بیٹھے ٹھہرنا یا رک جانا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کی اس حدیث میں چار معاملات کے متعلق تقدیم و تاخیر کو بیان کیا گیا ہے: ٭ قربانی ذبح کرنے سے پہلے سر منڈوا لینا۔ ٭ رمی کرنے سے پہلے حلق کرنا۔ ٭ رمی سے پہلے قربانی کرنا۔ ٭ رمی سے پہلے طواف افاضہ کرنا۔ حضرت علی ؓ سے مروی حدیث میں حلق سے پہلے طواف افاضہ کرنے کا ذکر ہے جبکہ حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث میں ذبح کرنے سے پہلے طواف افاضہ کرنا ہے۔ حضرت اسامہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے طواف سے پہلے سعی کرنے کا سوال ہوا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:2015) بہرحال بھول کر یا لاعلمی میں اگر کوئی کام آگے پیچھے ہو جائے تو اس میں کوئی دم واجب نہیں۔ (3) معمر بن راشد کی متابعت کو امام مسلم نے بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منیٰ میں اپنی اونٹنی پر سوار ہوتے دیکھا جبکہ آپ کے پاس ایک آدمی آیا ۔۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3162(1306)) (4) امام بخاری ؒ کا مقصود شریعت کی سادگی اور آسانی کو بیان کرنا ہے جو اس نے تعلیم و تعلم اور دعوت و افتا کے سلسلے میں سامنے رکھی ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس وقت بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کو دینی مسائل سے آگاہ فرما رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سواری پر بیٹھ کر مسائل بیان کر رہے تھے۔ (فتح الباري:719/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1690
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1738
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1738
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1738
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے متعلق فرمایا ہے: (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ﴿٢٩﴾) (الرحمٰن29:55) "وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔" اس کی ایک شان یہ ہے کہ وہ صاحبِ جلال اور احکام الحاکمین ہے۔ ہم سب اس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک و محکوم ہیں۔ اور دوسری شان یہ ہے کہ وہ تمام ایسی صفاتِ کمال سے متصف ہے جن کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے، اس اعتبار سے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی ہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی شاہانہ اور حاکمانہ شان کا تقاضا ہے کہ بندے اس کے حضور نہایت ادب و نیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں اور دوسری شانِ محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت و فدائیت کا ہو۔ فریضہ حج ادا کرتے وقت بندوں میں اس رنگ کو پورے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔سلے ہوئے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس زیب تن کرنا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں کو پراگندہ چھوڑنا، ان میں تیل اور کنگھی استعمال نہ کرنا، خوشبو نہ لگانا، چیخ چیخ کر لبیک لبیک پکارنا، دیوانوں کی طرح بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے درودیوار سے لپٹنا، آہ زاری کرنا، پھر صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا، اس کے بعد مکہ سے باہر منیٰ، کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں ڈیرے لگانا، یہ تمام وہی اعمال ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں۔ ان اعمال کے مجموعے کا نام حج ہے۔حج کے لغوی معنی "قصد و ارادہ کرنا" ہیں۔ خلیل لغوی کے نزدیک اس کے معنی کسی محترم مقام کی طرف بکثرت اور بار بار ارادہ کرنا ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں ایک مقررہوقت پر مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف سفر کا قصد کرنا اور دیوانوں کی طرح اللہ کے حضور،اس کے گھر میں حاضری دینا حج کہلاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مسائل زکاۃ کے بعد مناسکِ حج بیان کیے ہیں،حالانکہ ارکان اسلام کی ترتیب میں زکاۃ کے بعد رمضان کے روزے اور آخر میں فریضۂ حج کی ادائیگی ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:114(16))صحیح مسلم کی رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حج کے بعد روزے کا ذکر کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:نہیں، پہلے رمضان کے روزے،اس کے بعد حج کا ذکر ہے۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی تربیت کے مطابق سنا ہے۔( صحیح مسلم،الایمان،حدیث:111(16))لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حنظلہ بن ابو سفیان کی روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے مذکورہ ترتیب کو اختیار کیا ہے کیونکہ اس روایت میں حج کے بعد صوم رمضان کا ذکر ہے۔(صحیح البخاری،الایمان،حدیث:8) صحیح مسلم کی ایک روایت بھی اسی ترتیب کے مطابق ہے۔(صحیح مسلم،الایمان،حدیث:113،112(16))جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں روزے کا ذکر زکاۃ سے بھی پہلے ہے۔( صحیح البخاری،التفسیر،حدیث:4514)اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس روایت کو بنیاد بنایا ہے وہ روایت بالمعنی ہے۔دراصل اعمال کی تین اقسام ہیں:٭خالص بدنی٭خالص مالی٭ بدنی اور مالی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اعمال کے اعتبار سے مذکورہ ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے۔پہلے نماز جو خالص بدنی ہے،بھر زکاۃ جو خالص مالی ہے،اس کے بعد حج جس میں مالی اور بدنی دونوں قسم کے اعمال ہیں،روزے کا ذکر اس کے بعد کیا ہے کیونکہ اس کا تعلق ترک اشیاء سے ہے۔نفسیاتی اعتبار سے اگرچہ روزہ بھی ایک عمل ہے لیکن جسمانی اعتبار سے چند چیزوں کو عبادت کی نیت سے چھوڑ دینے کا نام روزہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت تقریبا دو سو ساٹھ(260) مرفوع متصل احادیث ذکر کی ہیں اور ان پر ایک سو اکیاون (151) چھوٹے چھوٹے عناوین قائم کیے ہیں جن میں وجوب حج،فضیلت حج، مواقیت حج، طریقۂ حج،احرام حج اور محذورات حج کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ان کے علاوہ مکہ مکرمہ، حرم شریف، حجراسود،آب زمزم اور ہدی، یعنی قربانی کے متعلق بھی احکام ومسائل ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دلنواز اداؤں اور ان کے اللہ کے راستے پر چلنے کے طور طریقوں کو ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری،ملت ابراہیم سے اپنی وابستگی اور وفاداری کے اظہار کےلیے اپنے اندر بڑی تڑپ محسوس کرتا ہے اور ابراہیمی جذبات وکیفیات کے رنگ میں رنگنے کے لیے خود کو مجبور پاتا ہے۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان،کتاب الحج، کے تحت 312 احادیث ذکر کی ہیں،جن میں سے 57 معلق اور باقی متصل سند سے روايت كي ہيں۔ ان میں 191 مکرر اور 121 احادیث خالص ہیں۔33 احادیث کے علاوہ باقی احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے،مرفوع احادیث کے علاوہ متعدد صحابۂ کرام اور تابعین عظام کے تقریبا 60 معلق آثار واقوال بھی پیش کیے ہیں۔قارئین کرام سے التماس ہے کہ وہ اپنی معلومات میں اضافے کے طور پر نہیں بلکہ اپنی زندگی کو خالص اسلامی زندگی بنانے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کریں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے اور قیامت کے دن وہ ہمیں اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع فرمائے۔آمین یا رب العالمین
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے ایک اور روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ اس دن اونٹنی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر باقی حدیث ذکر کی۔ معمر بن راشد نے امام زہری ؓ سے بیان کرنے میں صالح بن کیسان کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒنے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے مروی اس حدیث پر قبل ازیں اسی قسم کے دو عنوان قائم کیے ہیں جن کے الفاظ حسب ذیل ہیں: ٭ چوپائے پر بیٹھ کر سوالوں کے جواب دینا۔ ٭ رمی جمار کے وقت سوال و جواب کرنا۔ بظاہر تکرار معلوم ہوتا ہے لیکن شاز و نادر ہی ایسا ہوا ہے۔ (فتح الباري:718/3)واللہ أعلم۔ (2) واضح رہے کہ ان احادیث میں "وَقَفَ" کے معنی کھڑا ہونا نہیں بلکہ سواری پر بیٹھے بیٹھے ٹھہرنا یا رک جانا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کی اس حدیث میں چار معاملات کے متعلق تقدیم و تاخیر کو بیان کیا گیا ہے: ٭ قربانی ذبح کرنے سے پہلے سر منڈوا لینا۔ ٭ رمی کرنے سے پہلے حلق کرنا۔ ٭ رمی سے پہلے قربانی کرنا۔ ٭ رمی سے پہلے طواف افاضہ کرنا۔ حضرت علی ؓ سے مروی حدیث میں حلق سے پہلے طواف افاضہ کرنے کا ذکر ہے جبکہ حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث میں ذبح کرنے سے پہلے طواف افاضہ کرنا ہے۔ حضرت اسامہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے طواف سے پہلے سعی کرنے کا سوال ہوا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:2015) بہرحال بھول کر یا لاعلمی میں اگر کوئی کام آگے پیچھے ہو جائے تو اس میں کوئی دم واجب نہیں۔ (3) معمر بن راشد کی متابعت کو امام مسلم نے بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو منیٰ میں اپنی اونٹنی پر سوار ہوتے دیکھا جبکہ آپ کے پاس ایک آدمی آیا ۔۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث:3162(1306)) (4) امام بخاری ؒ کا مقصود شریعت کی سادگی اور آسانی کو بیان کرنا ہے جو اس نے تعلیم و تعلم اور دعوت و افتا کے سلسلے میں سامنے رکھی ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس وقت بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کو دینی مسائل سے آگاہ فرما رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سواری پر بیٹھ کر مسائل بیان کر رہے تھے۔ (فتح الباري:719/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی، ان سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے عیسیٰ بن طلحہ بن عبید اللہ نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے سنا انہوں نے بتلایا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے سواری پر سوار ہو کر ٹھہرے رہے پھر پوری حدیث بیان کی۔ اس کی متابعت معمر نے زہری سے روایت کرکے کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
شریعت کی اس سادگی اور آسانی کا اظہار مقصود ہے جو اس نے تعلیم، تعلم، افتاء و ارشاد کے سلسلہ میں سامنے رکھی ہے۔ بعض روایتوں میں ایسا بھی ہے کہ آپ ﷺ اس وقت سواری پر نہ تھے بلکہ بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کے مسائل بتلا رہے تھے۔ سو تطبیق یہ ہے کہ کچھ وقت سواری پر بیٹھ کر ہی آپ ﷺ نے مسائل بتلائے ہوں، بعد میں آپ ﷺ اتر کر نیچے بیٹھ گئے ہوں۔ جس راوی نے آپ ﷺ کو جس حال میں دیکھا بیان کر دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr bin Al-'As (RA): Allah's Apostle (ﷺ) stopped while on his she-camel (the subnarrator then narrated the Hadith as above, i.e. 793).