مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
آنحضرتﷺ نے فرمایا زکوٰۃ کے ڈر سے جو مال اکٹھا ہو اسے جدا جدا نہ کریں اور جو جدا جدا ہو اسے اکٹھا نہ کریں۔
6956.
حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بایں حالت حاضر ہوا کہ اسکے بال پرگنداہ تھے۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے بتائیں کہ اللہ تعالٰی نے مجھ پر کتنی نمازیں فرض کی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”(دن رات میں) پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ ہاں، اگر نوافل پڑھو تو الگ بات ہے“ اس نے عرض کی: اللہ تعالٰی نے مجھ پر کتنے روزے فرض کیے ہیں؟ آپ نےفرمایا: ”ماہ رمضان کے روزے فرض کیے ہیں الا یہ کہ تم نفل روزے رکھ لیا کرو۔“ اس نے عرض کی: اللہ تعالٰی نے مجھ پر کتنی زکاۃ فرض کی ہے؟ آپ ﷺ نے اسے زکاۃ کے مسائل سے آگاہ کیا۔ اس (دیہاتی) نے کہا: مجھے اس ذات کی قسم جس نے آپ کو یہ عزت بخشی ہے! اللہ تعالٰی نے مجھ پر جو فرض کیا ہے میں اس سے نہ زیادہ کروں گا اور نہ اس میں کسی کمی کا مرتکب ہوں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر اس نے صحیح کہا ہے تو نجات پا گیا۔ یا فرمایا: ”جنت میں داخل ہو گیا۔“ بعض لوگوں نے کہا: ایک سو بیس اونٹوں میں دو حقے دینے پڑتے ہیں۔ اگر کسی نے اونٹوں کو دانستہ ہلاک کر دیا یا کسی کو ہبہ کر دیے یا زکاۃ سے فرار کرتے ہوئے کوئی حیلہ کیا تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہوگی۔
تشریح:
1۔اس حدیث کے آخر میں ہے کہ اگر اس نے سچ کہا ہے تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگروہ احکام وفرائض میں کوتاہی نہیں کرے گا اور حیلوں بہانوں کے ذریعے سے فرائض واحکام میں کمی کا مرتکب نہیں ہوگا تو کامیابی کا حقدار ہوگا، اس لیے انسان کو احکام کی بجاآوری میں حیلے بہانے نہیں کرنے چاہئیں۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی نے اسقاط زکاۃ کے لیے حیلہ سازی یا بہانہ گری سے کام لیا تو قیامت کے دن اس سے باز پرس ہوگی کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے فرائض سے حیلہ سازی کے ذریعے سے بچنے کی کوشش کر کے کھلی بغاوت کا ارتکاب کیا ہے۔ 3۔واضح رہے کہ حقہ اس اُونٹنی کو کہتے ہیں جو تین سال مکمل کر کے چوتھے سال میں قدم رکھ چکی ہو اور وہ بچہ جننے کے قابل ہو۔ اگر کسی کے پاس ایک سو بیس اونٹ ہوں تو ان میں ایسی دو اونٹنیاں بطور زکاۃ واجب ہیں۔ (صحیح البخاري، الزکاة۔ حدیث: 1454) اگر کوئی مالد دارآدمی سال پورا ہونے سے ایک دو روز پہلے جان بوجھ کر ان اونٹوں میں سے دو اونٹ ذبح کر ڈالے یا کچھ اونٹ کسی کو ہبہ کر دے یا کوئی حیلہ کر کے زکاۃ سے بچنے کی کوشش کرے تو ایسا انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل گرفت ہوگا۔ لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر سال پورا ہونے سے پہلے نصاب زکاۃ میں کمی کر دے تو اس میں کوئی گناہ نہیں کیونکہ سال پورا ہونے سے پہلے وہ اپنے مال میں جیسے چاہے تصرف کر سکتا ہے جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: اگر کسی کے پاس دو سو درہم ہیں تو اس میں اسقاط زکاۃ کا حیلہ یہ ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے ایک درہم صدقہ کر دے یا اپنے کسی چھوٹے بیٹے کو ہبہ کر دے تا کہ سال پورا ہوتے وقت اس کا نصاب ناقص ہو جائے تو اس صورت میں اس پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔ (فتاویٰ عالمگیری: 391/6) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں ایسے لوگوں کا محاسبہ کیا ہے جو حیلہ سازی سے زکاۃ کی ادائیگی میں راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ 4۔حافظ ا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے : ’’جوشخص اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہے اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ صدقہ روکے یا اپنی چیز ملکیت سے نکال دے تاکہ اس کا نصاب کم ہو جائے اور زکاۃ سے بچ جائے اور نہ صدقے سے بچنے کے لیے کوئی دوسرا حیلہ ہی کرے۔‘‘ (فتح الباری: 414/12)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6707
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6956
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6956
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6956
تمہید کتاب
(حِيّلُ, حِيلَّةُ)کی جمع ہے۔پوشیدہ تدبیر اختیار کرکے اپنا مقصود حاصل کرنے کو حیلہ کہا جاتا ہے۔حیلہ سازی کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔افسوس کہ ہمارے ایک مذہبی طبقے نے کتاب الحیل کے نام سے ایسی تدابیر کے انبار لگادیےہیں جن میں احکام الٰہی سے فرار کے چور دروازوں کی نشاندہی کی ہی گئی ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کے لوگوں کی تردید کے لیے کتاب الحیل کا عنوان قائم کیا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص کتاب و سنت کے اصولوں اوراقوال صحابہ کو سامنے رکھ کر کسی پیش آمدہ حادثے سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا کرتا ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے جیسا کہ سیدنا ایوب علیہ السلام طویل عرصہ بیمار رہے اس دوران میں ان کے تمام اہل خانہ انھیں چھوڑگئے۔صرف ایک بیوی نے ان کا ساتھ دیا۔اس نے ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ تعالیٰ کی نا شکری ظاہر ہوتی تھی۔سیدناایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر غصہ آگیا اور کہنے لگے۔اگر میں تندرست ہوگیا تو تجھے اس ناشکری کی سزا کے طور پر سولکڑیاں ماروں گا۔یہ حضرت ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمان کا تقاضا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ہی سزا دیتا ہے۔چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام جب تند رست ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی انھیں ایک تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لوجس کے سو تنکے ہوں اس سے ایک معمولی سی ضرب بیوی کو لگادو۔اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہو جائے گی اور وفادار بیوی پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو)لو اور(اس کو)اس سے مارواور قسم نہ توڑو۔"(ص:38۔44)اسی طرح حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں ایک پاہج (لنگڑا،لولا)کمزور سا آدمی رہتا تھا۔ وہ ہماری ایک لونڈی سے جرم زنا میں ملوث ہو گیا۔ ہم نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا :"اسے حد لگاؤ۔"لوگوں نے عرض کی: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو انتہائی لاغر اور کمزور ہے۔اگر ہم نے اسے(سوکوڑے)حد لگائی تو وہ مر جائےگا۔آپ نے فرمایا:"کھجور کی ایک ٹہنی لو جس میں سو شاخیں ہوں پھر اسے ایک ہی مرتبہ اس آدمی پردے مارو۔"(سنن ابن ماجہ الحدود حدیث:2574)چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا یہ حیلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے اختیار کیا کہ وہ سو کوڑے کھانے کی طاقت نہ رکھتا تھا اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی تھا یوں آپ نے حدود الٰہی کا تقاضا بھی پوراکردیا اور اس کی جان بخشی بھی ہو گئی اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظالم کا دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے لیکن ایسے حیلے جن کے اختیار کرنے سے کوئی شرعی ضابطہ مجروح ہونا ہو یا انھیں عمل میں لانے سے کوئی شرعی مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز اور حرام ہیں جیسا کہ زکاۃ کو ساقط کرنے کےلیے یہ حیلہ کرنا جسے فتاوی عالمگیری میں اختیار کیا گیا ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے پورا مال یا اس کا کچھ حصہ کسی دوسرےکو ہبہ کرنے اپنی ملکیت سے نکال دیا جائے پھر سال گزرنے سے پہلے ہی اس سےو ہی مال اپنے حق میں ہبہ کرا لیا جائے۔اس طرح زکاۃ ادا کرنے سے بال بال بچ جاتا ہے۔(فتاوی عالمگیری کتاب الحیل باب فی مسائل الزکاۃ3/391)قرآن کریم نے بھی اس قسم کے ناجائز حیلے کا ایک مقام پر ذکر کیا ہے چنانچہ اس میں ایک مخصوص بستی کا ذکر ہے جو سمندر کے کنارے آباد تھی انھیں یہ حکم تھا کہ ہفتے کے دن کاروبار نہیں کریں گے۔بلکہ یہ دن آرام کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے لیے مخصوص تھا لیکن وہ بستی والے جن کا پیشہ ماہی گیری یعنی مچھلیاں پکڑنا تھا۔اتفاق ایسا ہوا کہ چھ دن تو مچھلیاں پانی میں چھپی رہتیں اور ہفتے کے دن پانی کی سطح پر سینہ تان کر تیرتی پھر تیں اب ان ماہی گیروں نے ایک حیلہ سازی کی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی محفوظ رہے وہ اس طرح کہ انھوں نے ساحل سمندر کے ساتھ کھائیاں کھود لیں جب ان میں پانی آتا تو ساتھ مچھلیاں بھی آجاتیں پھر دوسرے دن یہ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے جو کھائیوں میں میں آجاتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے اس ناجائزحیلہ سازی کی پاداش میں انھیں ذلیل و خوار بندر بنادیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔"تم اپنے ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ہو ۔جنھوں نے ہفتے کے(دن کے) بارے میں زیادتی کی تھی تو ہم نے انھیں کہا ذلیل بندر بن جاؤ (البقرہ:2/65)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قسم کی حیلہ سازی پر گرفت کی ہے اور لوگوں کو ایسا سبق پڑھانے والوں کی مکاری سے پردہ اٹھایا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد بن حسن کوفی کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اہل ایمان کایہ کردار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ احکام الٰہی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے ایسا حیلہ کرے جو حق کو نابود کرنے کے لیے ہو۔(فتح الباری:12/411) الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت اکتیس(31) احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک (1)معلق اور باقی تیسی(30)احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔گویاانھوں نے اس قسم کے حیلوں کے ناجائز ہونے پر اکتیس(31)دلائل پیش کیے ہیں جو نماز ، زکاۃ نکاح ، بیوع ، ہبہ اور شفعہ وغیرہ کے متعلق ہیں اور اس کا آغاز ہی ترک حیلہ کے عنوان سے کیا ہے۔ ہم ان کی وضاحت فوائد میں کریں گے۔بہر حال بنیادی طور پر اس طرح کے حیلے ناجائز اور حرام ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے اور اس قسم کے حیلوں سے محفوظ رکھے جو شریعت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے عمل میں لائے جاتے ہیں۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا زکوٰۃ کے ڈر سے جو مال اکٹھا ہو اسے جدا جدا نہ کریں اور جو جدا جدا ہو اسے اکٹھا نہ کریں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بایں حالت حاضر ہوا کہ اسکے بال پرگنداہ تھے۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے بتائیں کہ اللہ تعالٰی نے مجھ پر کتنی نمازیں فرض کی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”(دن رات میں) پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ ہاں، اگر نوافل پڑھو تو الگ بات ہے“ اس نے عرض کی: اللہ تعالٰی نے مجھ پر کتنے روزے فرض کیے ہیں؟ آپ نےفرمایا: ”ماہ رمضان کے روزے فرض کیے ہیں الا یہ کہ تم نفل روزے رکھ لیا کرو۔“ اس نے عرض کی: اللہ تعالٰی نے مجھ پر کتنی زکاۃ فرض کی ہے؟ آپ ﷺ نے اسے زکاۃ کے مسائل سے آگاہ کیا۔ اس (دیہاتی) نے کہا: مجھے اس ذات کی قسم جس نے آپ کو یہ عزت بخشی ہے! اللہ تعالٰی نے مجھ پر جو فرض کیا ہے میں اس سے نہ زیادہ کروں گا اور نہ اس میں کسی کمی کا مرتکب ہوں گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر اس نے صحیح کہا ہے تو نجات پا گیا۔ یا فرمایا: ”جنت میں داخل ہو گیا۔“ بعض لوگوں نے کہا: ایک سو بیس اونٹوں میں دو حقے دینے پڑتے ہیں۔ اگر کسی نے اونٹوں کو دانستہ ہلاک کر دیا یا کسی کو ہبہ کر دیے یا زکاۃ سے فرار کرتے ہوئے کوئی حیلہ کیا تو اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہوگی۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث کے آخر میں ہے کہ اگر اس نے سچ کہا ہے تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگروہ احکام وفرائض میں کوتاہی نہیں کرے گا اور حیلوں بہانوں کے ذریعے سے فرائض واحکام میں کمی کا مرتکب نہیں ہوگا تو کامیابی کا حقدار ہوگا، اس لیے انسان کو احکام کی بجاآوری میں حیلے بہانے نہیں کرنے چاہئیں۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی نے اسقاط زکاۃ کے لیے حیلہ سازی یا بہانہ گری سے کام لیا تو قیامت کے دن اس سے باز پرس ہوگی کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے فرائض سے حیلہ سازی کے ذریعے سے بچنے کی کوشش کر کے کھلی بغاوت کا ارتکاب کیا ہے۔ 3۔واضح رہے کہ حقہ اس اُونٹنی کو کہتے ہیں جو تین سال مکمل کر کے چوتھے سال میں قدم رکھ چکی ہو اور وہ بچہ جننے کے قابل ہو۔ اگر کسی کے پاس ایک سو بیس اونٹ ہوں تو ان میں ایسی دو اونٹنیاں بطور زکاۃ واجب ہیں۔ (صحیح البخاري، الزکاة۔ حدیث: 1454) اگر کوئی مالد دارآدمی سال پورا ہونے سے ایک دو روز پہلے جان بوجھ کر ان اونٹوں میں سے دو اونٹ ذبح کر ڈالے یا کچھ اونٹ کسی کو ہبہ کر دے یا کوئی حیلہ کر کے زکاۃ سے بچنے کی کوشش کرے تو ایسا انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل گرفت ہوگا۔ لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر سال پورا ہونے سے پہلے نصاب زکاۃ میں کمی کر دے تو اس میں کوئی گناہ نہیں کیونکہ سال پورا ہونے سے پہلے وہ اپنے مال میں جیسے چاہے تصرف کر سکتا ہے جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے: اگر کسی کے پاس دو سو درہم ہیں تو اس میں اسقاط زکاۃ کا حیلہ یہ ہے کہ سال پورا ہونے سے پہلے ایک درہم صدقہ کر دے یا اپنے کسی چھوٹے بیٹے کو ہبہ کر دے تا کہ سال پورا ہوتے وقت اس کا نصاب ناقص ہو جائے تو اس صورت میں اس پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔ (فتاویٰ عالمگیری: 391/6) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں ایسے لوگوں کا محاسبہ کیا ہے جو حیلہ سازی سے زکاۃ کی ادائیگی میں راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ 4۔حافظ ا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے : ’’جوشخص اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہے اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ صدقہ روکے یا اپنی چیز ملکیت سے نکال دے تاکہ اس کا نصاب کم ہو جائے اور زکاۃ سے بچ جائے اور نہ صدقے سے بچنے کے لیے کوئی دوسرا حیلہ ہی کرے۔‘‘ (فتح الباری: 414/12)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے ابوسہیل نافع نے، ان سے ان کے والد مالک بن ابی عامر نے، اور ان سے طلحہ بن عبیداللہ ؓ نے کہ ایک دیہاتی (تمام بن ثعلبہ) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں اس حال میں حاضر ہوا کہ اس کے سر کے بال پریشان تھے اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے بتايے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کتنی نمازیں فرض کی ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پانچ وقت کی نمازیں۔ سوا ان نمازوں کے جو تم نفلی پڑھو۔ اس نے کہا مجھے بتايے کہ اللہ تعالیٰ نے کتنے روزے فرض کئے ہیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کے مہینے کے روزے سوا ان کے جو تم نفلی رکھو۔ اس نے پوچھا مجھے بتايے کہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کتنی فرض کی ہے؟ بیان کیا کہ اس پر آنحضرت ﷺ نے زکوٰۃ کے مسائل بیان کئے۔ پھر اس دیہاتی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو یہ عزت بخشی ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فرض کیا ہے اس میں نہ میں کسی قسم کی زیادتی کروں گا اور نہ کمی۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر اس نے صحیح کہا ہے تو جنت میں جائے گا اور بعض لوگوں نے کہا کہ ایک سو بیس اونٹوں میں دو حصے تین تین برس کی دو اونٹنیاں جو چوتھے برس میں لگی ہوں زکوٰۃ میں لازم آتی ہیں پس مگر کسی نے ان اونٹوں کو عمداً تلف کر ڈالا(مثلاً ذبح کر دیا) اور کوئی حیلہ کیا تو اس کے اوپر سے زکوٰۃ ساقط ہوگی۔
حدیث حاشیہ:
اہل حدیث کہتے ہیں کہ جو کوئی زکوٰۃ سے بچنے کے لیے اس قسم کے حیلے کرے گا تو زکوٰۃ اس پر سے ساقط نہ ہوگی۔ حنفیہ نے ایک اور عجیب حیلہ لکھا ہے یعنی اگر کسی عورت کو اس کا خاوند نہ چھوڑتا ہو اور وہ اس کے ہاتھ سے تنگ ہو تو خاوند کے بیٹے سے اگر زنا کرائے تو خاوند پر حرام ہو جائے گی۔ امام شافعی کا مناظرہ اس مسئلہ میں امام محمد سے بہت مشہور ہے۔ اہل حدیث کے نزدیک یہ حیلہ چل نہیں سکتا کیوں کہ ان کے نزدیک مصاہرت کا رشتہ زنا سے قائم نہیں ہو سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Talha bin 'Ubaidullah (RA) : A bedouin with unkempt hair came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Tell me what Allah has enjoined on me as regards prayers." The Prophet (ﷺ) said, "You have to offer perfectly the five (compulsory) prayers in a day and a night (24 hrs.), except if you want to perform some extra optional prayers." The bedouin said, "Tell me what Allah has enjoined on me as regards fasting." The Prophet (ﷺ) said, "You have to observe fast during the month of Ramadan except if you fast some extra optional fast." The bedouin said, "Tell me what Allah has enjoined on me as regard Zakat." The Prophet (ﷺ) then told him the Islamic laws and regulations whereupon the bedouin said, "By Him Who has honored you, I will not perform any optional deeds of worship and I will not leave anything of what Allah has enjoined on me." Allah's Apostle (ﷺ) said, "He will be successful if he has told the truth (or he will enter Paradise if he said the truth)." And some people said, "The Zakat for one-hundred and twenty camels is two Hiqqas, and if the Zakat payer slaughters the camels intentionally or gives them as a present or plays some other trick in order to avoid the Zakat, then there is no harm (in it) for him.