تشریح:
(1) آپ نے سورۂ نساء پہلے پڑھی، آل عمران بعد میں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قراءت میں سورتوں کی ترتیب میں تقدیم و تاخیر جائز ہے۔
(2) اس حدیث میں رکوع اور سجدے کی مذکورہ تسبیحات مختصر اور جامع ہیں، اس لیے امت میں یہی رائج ہوچکی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ فرض نماز میں ان کے علاوہ دوسری تسبیحات یا ادعیہ جائز ہی نہیں بلکہ اپنے ذوق اور جماعت کی صورت میں، مقتدیوں اور امام کا لحاظ رکھتے ہوئے کوئی سی تسبیحات پڑھی جا سکتی ہیں۔
(3) قراءت قرآن کے وقت الفاظ و معانی کی طرف پوری توجہ دینا اور پھر ان سے متاثر ہونا، اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کا سوال، سزا اور عذاب سے تعوذ، صالحین کی معیت اور مفسدین سے بچاؤ، دخول جنت اور جہنم سے نجات کی دعائیں کرنا نمازی کے خشوع خضوع کی دلیل ہے اور یہی نماز سے مطلوب ہے۔ اس میں فرض اور نفل نماز کا کوئی فرق نہیں، البتہ مقتدیوں کا لحاظ رکھنا چاہیے۔
(4) کیا مقتدی بھی امام کی قراءت میں کسی سوال کا جواب، حکم کی بجا آوری اور رحمت کی دعا وغیرہ کرسکتے ہیں؟ علمائے امت کا اس میں اختلاف ہے۔ کچھ عدم جواز کے قائل ہیں اور کچھ نے عمومات سے استدلال کرتے ہوئے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ صرف قاری جواب دے گا کیونکہ حدیث میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب دینے کا ذکر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود قراءت کر رہے تھے کیونکہ آپ امام تھے۔ اسی طرح منفرد بھی جواب دے گا کیونکہ وہ بھی خود قراءت کرتا ہے، مقتدی جواب نہیں دے گا کیونکہ وہ فاتحہ کے علاوہ قراءت نہیں کرتا۔ واللہ أعلم۔