تشریح:
(1) مؤلفۃ القلوب کئی قسم کے ہوتے ہیں: وہ لوگ جو اپنی قوم میں با اثر سردار ہوں اور ان کے اسلام لانے کی امید ہو۔ انھیں عطیات دیے جائیں تاکہ ان کے دل سے بُعد ختم ہو اور وہ مسلمان ہو جائیں۔ بعد میں اسلام خود بخود ان کے دلوں میں گھر کر جائے گا۔ ان کی وجہ سے ان کی قوم بھی مسلمان ہو جائے گی۔ وہ نومسلم لوگ جن کے دلوں تک اسلام نہیں پہنچا مگر وہ اپنی قوم کے بااثر سردار ہیں۔ اگر انھیں نہ دیا گیا تو وہ کوئی فتنہ کھڑا کر سکتے ہیں، اس لیے انھیں عطیات دیے جائیں تاکہ وہ اسلام پر پکے ہو جائیں۔ وہ با اثر لوگ جن کے ساتھ مسلمانوں کے علاقے ملتے ہیں اور وہ مشکل وقت میں مسلمانوں کے محافظ بن سکتے ہیں۔
(2) رسول اللہﷺ نے مؤلفۃ القلوب کو مال دیا ہے۔ قرآن مجید میں بھی زکاۃ کے مصارف میں ان کا ذکر ہے۔ مگر احناف کا خیال ہے کہ اب اسلام مضبوط ہو چکا ہے۔ ہم ایسے لوگوں کے محتاج نہیں رہے، لہٰذا اب ان کا حصہ ساقط ہو چکا ہے، جبکہ دیگر اہل علم ضرورت پڑنے پر انھیں اب بھی مصرف سمجھتے ہیں اور یہی بات درست ہے۔ کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر جگہ اسلام غالب ہی آ چکا ہو۔ بعض علاقوں میں نبیﷺ کے دور والی صورت حال بھی ہو سکتی ہے۔
(3) جن چار سرداروں کے مابین آپ نے وہ سونا تقسیم کیا تھا، وہ مؤلفۃ القلوب کی دوسری قسم میں داخل تھے۔
(4) ”قریش کے نو مسلم سردار“ جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے۔ یہ اطمینان قلب میں مہاجرین وانصار کے درجے میں نہ تھے۔
(5) ”ایک شخص“ گویا اس کی ظاہری شکل وصورت بھی قبیح تھی اور بات اس سے بھی قبیح کی۔ ظاہر یہی ہے کہ یہ کوئی منافق شخص تھا جو صرف مال کے لالچ میں مسلمان ہوا تھا۔ نہ ملنے پر بکواس کرنے لگا۔
(6) ”اجازت نہ دی۔“ کیونکہ وہ ظاہراً مسلمان تھا۔ اور منافقوں کے قتل کی اجازت نہ تھی۔ اس نے صراحتاً کوئی الزام بھی نہ لگایا تھا۔
(7) ”اس کی نسل سے۔“ واقعتا یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں یہ ظاہر ہوئے۔ قرآن بہت پڑھتے تھے مگر پڑھنا اور بات ہے، سمجھنا اور بات۔ ان کی بے وقوفی یہ تھی کہ قرآن مجید صحابہ رضی اللہ عنہم سے پڑھتے تھے مگر مطلب انھیں بتاتے تھے۔
(8) ”حلق سے تجاوز۔“ یعنی قرآن مجید کو سمجھ نہ سکیں گے، لہٰذا ثواب کے بھی حق دار نہ ہوں گے۔
(9) ”مسلمانوں کو قتل۔“ واقعتا انھوں نے بہت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کیا۔ خلیفہ برحق حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو صراحتاً کافر کہا۔ نعوذ باللہ من ذلك۔ خلیفہ وقت سے لڑائی کی اور اپنی تمام توانائیاں اہل اسلام کے خلاف صرف کیں۔ یہ لوگ اپنے خیال میں مخلص مسلمان تھے۔ مگر حقیقتاً مسلمانوں کے لیے کافروں سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوئے۔ ظاہراً بہت نیک تھے۔ نماز روزے کے سختی سے پابند تھے مگر دین کے صحیح فہم سے نابلد تھے۔ ایسے لوگ کفار اور شیطان کے ہاتھوں آسانی سے کھلونا بن جاتے ہیں۔ انھیں دنیا ”خوارج“ کے نام سے یاد رکھتی ہے۔
(10) ”وہ اسلام سے نکل جائیں گے۔“ ظاہراً تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کافر تھے، کچھ اور نصوص سے بھی ان کے کفر کا اثبات ہوتا ہے۔ اسی لیے محدثین کا ایک گروہ ان کے کافر ہونے کا قائل ہے۔ لیکن فقہاء نے انھیں گمراہ فرقوں میں داخل کیا ہے۔ گویا ان کے نزدیک رسول اللہﷺ کے مندرجہ بالا الفاظ زجر و تغلیظ پر محمول ہیں۔ واللہ أعلم
(11) ”قتل کروں گا۔“ یہ فریضہ حصرت علی رضی اللہ عنہ نے سر انجام دیا اور ان کا خاتمہ فرمایا۔ اگرچہ وہ بعد میں بھی عرصہ دراز تک امت مسلمہ کے لیے کسی نہ کسی علاقے میں آفت بنے رہے۔ آہستہ آہستہ وہ سیاسی اور مذہبی طور پر ختم ہوگئے۔ والحمد للہ