تشریح:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح بنتی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف تلوار اٹھانے والا واجب القتل ہے۔
(2) اسلام کی طرف مائل کرنے، نیز اسلام کا گرویدہ کرنے کے لیے مؤلفۃ القلوب لوگوں کو زکاۃ دی جا سکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی تالیف قلب کے لیے انہی چار افراد میں سارا سونا تقسیم فرما دیا۔ چونکہ وہ چاروں افراد بڑے بڑے قبیلوں کے سردار تھے۔ نو مسلم تھے۔ ابھی یہ رسول اللہ ﷺ کی تربیت سے فیض یاب نہیں ہوئے تھے۔ ایمان دل میں جاگزیں نہ ہوا تھا۔ اس قسم کے لوگوں کو مال مل جائے تو بڑے خوش ہوتے ہیں او وفادار بن جاتے ہیں۔ مال نہ ملے تو فتنہ کھڑا کر دیتے ہیں۔ ارتداد کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ (جیسے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ہوا)۔ اس لیے آپ نے انہیں خوب عطیات دیے۔ حنین کی غنیمت سے بھی انہیں سو سو اونٹ دیے اور دیگر عطیات سے بھی نوازا۔ آپ کا مقصد ان کی تالیف قلب تھا تاکہ ان کے دلوں میں ایمان جاگیزیں ہو جائے اور وہ پکے مومن بن جائیں۔ قریش و انصار چونکہ ایمان میں پختہ تھے، ان سے اس قسم کا کوئی خطرہ نہ تھا، اس لیے آپ نے انہیں کچھ نہ دیا۔
(3) ”غصہ آ گیا“ یہ غصہ بھی بعض نوجوانوں کو آیا تھا ورنہ سابقون اولون مہاجرین و انصار سے تو اس کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔
(4) اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ محض قرآن مجید کی تلاوت کسی شخص کے مومن صادق ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی جبکہ وہ قرآن مقدس کے عملی تقاضے پورے نہ کرے۔
(5) رسول اللہ ﷺ انتہائی متحمل مزاج او عفو سے کام لینے والے عظیم انسان تھے۔ بڑے بڑے بے ادب اور گستاخ لوگوں سے بھی صرف نظر فرما جایا کرتے تھے، بالخصوص اپنی ذات کی خاطر کسی سے بھی انتقام نہ لیتے تھے۔
(6) اس حدیث سے خوارج کے ساتھ قتال کرنے کی مشرعیت بھی ثابت ہوتی ہے، خواہ انہیں مرتد سمجھ کر ان سے قتال کیا جائے یا امام عادل کا باغی سمجھ کر کیا جائے۔
(7) اس حدیث سے خارجیوں کی کچھ نشانیاں بھی معلوم ہوتی ہیں، مثلاً: ظاہراً وہ عام مسلمانوں کی نسبت بہت زیادہ عبادت گزار ہوتے ہیں، نیز یہ بھی کہ وہ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں مسلمانوں سے بہت زیادہ عداوت بھی رکھتے ہیں۔
(8) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ بغیر قصد و ارادہ کے دین اسلام سے نکل جاتے ہیں، حالانکہ وہ دین اسلام پر کسی بھی دوسرے دین و مذہب کو قطعاً ترجیح نہیں دے رہے ہوتے۔
(9) رسول اللہ ﷺ کی تقسیم پر اعتراض کرنے والے شخص کا نام حدیث میں ذوالخویصرہ مذکور ہے۔ دیکھئے: (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: ۳۶۱۰) بلاشبہ معترض کا یہ اعتراض غلط اور ایمان کے تقاضوں کے منافی ہے بلکہ اس سے نفاق مترشح ہوتا ہے۔
(10) اس معترض کو قتل کرنے کی اجازت طلب کرنے والے حضرات جناب خالد بن ولید اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔ صحیح بخاری میں ان دونوں کے ناموں کی تصریح ہے۔ دیکھئے: (حدیث: ۳۳۴۴، ۳۶۰۱)
(11) اس حدیث پاک سے عمر بن خطاب اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی عظیم فضیلت و منقبت بھی معلوم ہوتی ہے کہ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے گستاخ کو قتل کرنے پر تیار ہو گئے۔ (12) ”حلق سے نیچے نہ جائے گا“ یعنی قرآن کی سمجھ حاصل نہ ہو گی۔ صرف پڑھنے سے علم و حکمت کا حصول نہیں ہو جاتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی توفیق کا ہونا بھی ضروری ہے۔
(13) ”صاف نکل جاتا ہے“ جس طرح تیز تیر اپنے شکار سے بالکل صاف نکل جاتا ہے۔ خون یا گوبر کی آلودگی سے صاف رہتا ہے۔ اسی طرح یہ لوگ قرآن مجید سے کورے نکل جائیں گے اور انہیں دین کا فہم حاصل نہیں ہو گا۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ کافر ہوں گے کیونکہ خوارج بہر صورت مسلمانوں کا ایک فرقہ تھے جو دین کے مبادی کا اقرار کرتے تھے مگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا راستہ چھوڑ دینے کی وجہ سے گمراہ ہو گئے۔
(14) یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں ظاہر ہوئے تھے۔ پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حامی تھے، پھر بغاوت کر دی۔ بغاوت کی وجہ سے انہیں خارجی یا خوارج کہا گیا ہے۔ (عربی میں خروج بغاوت کو کہہ دیتے ہیں۔) یہ لوگ حد سے زیادہ نیک تھے لیکن کم عقلی کی وجہ سے اپنے علاوہ کسی کو مسلمان نہ سمجھتے تھے۔ انتہاء پسند تھے۔ ہر گناہ کو کفر کہتے تھے اور ہر گناہ گار کو کافر۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کو کافر کہہ کر اکثر قتل کرتے تھے اور کافروں کو معذور سمجھ کر چھوڑ دیتے تھے۔ انتہا پسندی کا نتیجہ ہمیشہ ایسا ہی نکلتا ہے، اس لیے انتہاء پسندی، تشدد اور تکلف کی اسلام میں مذمت کی گئی ہے۔
(15) ”قتل کر دوں گا“ کیونکہ وہ امت مسلمہ کے لیے ناسور کی حیثیت رکھتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک کو کافر کہنے اور قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ ان کا قتل ان کے شر سے بچنے کے لیے تھا نہ اس لیے کہ وہ کافر تھے۔ حضرت علی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے سمجھانے کے باوجود باز نہ آئے۔ آخر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انہیں لڑکر شکست دی۔ ہزاروں مارے گئے مگر عرصۂ دراز تک امت مسلمہ کے لیے فتنہ بنے رہے۔ معلوم ہوا، ہدایت کا معیار صرف نیکی نہیں بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفاء راشدین کی پیروی بھی ہے جو کہ اصل دین اسلام ہے۔ اسلام کی وہی تعبیر صحیح ہے جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کی۔ اگر ان کا اتفاق ہو تو اس کی پیروی لازم ہے اور اگر ان میں اختلاف ہو تو پھر بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اطاعت سے باہر نہیں جانا چاہیے۔
(16) خوارج صرف اس دور کے ساتھ خاص نہیں تھے بلکہ بعد میں بھی اس ذہنیت کے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔
(17) جو شخص بھی انتہا پسند ہو، بات بات پر کفر کے فتوے لگاتا ہو، مسلمانوں کو کافر کہہ کر ان کے قتل کا قائل ہو، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو گمراہ یا بدعتی کہتا ہو اور اپنے آپ کو صحابہ سے بڑھ کر دین کا محافظ سمجھتا ہو، وہ خارجی ہے چاہے کسی فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔ و اللہ أعلم۔
(18) خارجیوں کی بابت اہل علم کے مابین شدید اختلاف ہے۔ بعض اہلِ علم انہیں کافر قرار دیتے ہیں جبکہ اکثر اہلِ علم انہیں کافر نہیں بلکہ فاسق و فاجر اور بدعتی قرار دیتے ہیں۔ کافر قرار دینے والوں کی دلیل مذکورہ حدیث اور اس جیسی دیگر احادیث ہیں کہ جن میں ان کے متعلق اس قسم کے الفاظ بیان فرمائے گئے ہیں، مثلاً: یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّیْنِ، فَاقْتُلُوْهُمْ، فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِّمَنْ قَتَلَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اور هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وغیرہ۔ لیکن خارجیوں کو بدعتی اور فاسق و فاجر قرار دینے والوں کا کہنا ہے کہ خارجی لوگ شہادَتَیْن (کلمۂ شہادت) کا اقرار کرتے ہیں اور ارکانِ اسلام پر بھی ان کی مواظبت اور ہمیشگی ہے، لہٰذا وہ کافر نہیں۔ چونکہ اہل اسلام کے متعلق ان کا نقطۂ نظر درست نہیں، اس لیے وہ مبتدع اور فاسق و فاجر ہیں۔ شاید احادیث میں ان کی بابت مذکورہ بالا قسم کے شدید الفاظ بول کر انہیں سخت تنبیہ کرنا اور راہِ مستقیم پر لانا مقصود ہو۔ و اللہ أعلم