تشریح:
جو معاملات قابل معافی ہوں، ایسے معاملات میں معافی اور صلح کی ترغیب اچھی بات ہے کیوں کہ معافی یا صلح کی صورت میں آپس میں دشمنی ختم ہو جاتی ہے۔ محبت بڑھتی ہے۔ معاشرہ پر سکون ہو جاتا ہے۔ بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے مگر بسا اوقات بدلہ لینے کی صورت میں اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ ناراضی اور دشمنی پیدا ہوتی ہے، اس لیے شریعت نے معافی کو بدلہ لینے سے افضل قرار دیا ہے بشرطیکہ فریق ثانی عجز کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور خلوص دل سے معافی طلب کرے۔ البتہ اگر وہ تکبر اور غرور کا مظاہرہ کرے تو بدلہ لینا افضل ہے تا کہ اس متکبر کا غرور ٹوٹے۔ حاکم کے لیے مناسب ہے کہ مذکورہ بالا قسم کے مقدمات میں مصالحت کی کوشش کرے۔ اگر نہ ہو سکے تو حق کا فیصلہ کرے۔ البتہ بعض معاشرتی جرائم قابل معافی نہیں ہوتے، مثلاًَ: چوری، زنا وغیرہ ایسے مقدمات عدالت تک پہنچیں تو فیصلہ لازم ہے۔ قتل پہلی قسم میں داخل ہے۔ (روایت سے متعلقہ مزید تفصیلات کے لیے دیکھے، احادیث: ۴۷۲۶، ۴۷۳۵)