تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) امیر المومنین کو چاہیے کہ جہادی لشکر روانہ کرتے وقت ان سے خطاب کرے اور مناسب ہدایات دے۔
(2) یوں تو تقوی اور اخلاص ہر عمل میں ضروری ہے لیکن جہاد میں اس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے کیونکہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں اللہ کے بندوں کی جانیں لی جاتی ہیں اور مال چھنتے ہیں۔ اگر دوسروں کے جان ومال میں تصرف اللہ کی رضا کے لیے نہ ہوتو اس سے بڑھ کر کوئی ظلم نہیں ہوسکتا۔
(3) جہاد میں انسانوں کو قتل کرنا اصل مقصود نہیں بلکہ اصل مقصود لوگوں کو سچا دین قبول کرنے پر آمادہ کرنا یا اسے قبول کرنے والوں کی راہ سے رکاوٹیں دود کرنا ہے اس لیے اصل مقصود لوگوں کو سچا دین قبول کرنے پر آمادہ کرنا یا اسے قبول کرنے والوں کی راہ سے رکاوٹیں دور کرنا ہے اس لیے اگر کافر اسلام قبول کرلے تو یہ بھی درست ہے کیونکہ اس طرح وہ دوسروں کو اسلام قبول کرنے سے روکنے کی طاقت سے محروم ہوجاتا ہے۔
(4) ہجرت کرنے والے مسلمان اور ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں میں بعض مسائل میں فرق ہے۔
(5) ہجرت غیر مسلموں کے علاقے سے مسلمانوں کی سلطنت کی طرف جاتی ہے۔
(6) مجاہدین غیر مسلموں کو امان دے سکتے ہیں۔
(7) امان دیتے وقت اپنی ذاتی ذمہ داری پر امان دینی چاہیے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کی ذمہ داری پر امان ہے۔
(8) جنگ کے دوران میں دشمن کے قلعے کا محاصرہ کرنا درست ہے۔
(9) اگر محصورین مسلمانوں کے امیر لشکر کا فیصلہ قبول کرنے اور ہتھیار ڈالنے پر آمادہ ہوں تو ان کا مطالبہ تسلیم کرکے ان کے ساتھ جنگی قیدی کی حیثیت سے مناسب معاملہ کرنا چاہیے۔
(10) حالات کے مطابق جنگی قیدیوں کو فدیہ لے کر یا فدیہ رہا کرنا درست ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وعطاء بن السائب ثقة لكنه كان اختلط الإرواء (1247 و 7 / 292) ، الروض النضير (167)