تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) جہنم کی آزمائش اور فقر کی آزمائش سے مراد وہ گناہ ہیں جو جہنم میں لے جاتے ہیں یا عذاب قبر کا باعث بنتے ہیں۔
(2) دولت کا فتنہ یہ ہے کہ انسان مغرور ہو کر ظلم کرنے لگے یا حق کو تسلیم کرنے سے انکار کرے یا مال کو گناہ کے کاموں میں خرچ کرے۔ ایسا شخص اس آزمائش میں ناکام ہوا جو اللہ نے دولت دے کر کی۔
(3) مفلسی کا فتنہ او ر آزمائش یہ ہے کہ انسان روری کمانے کےحرام طریقے اختیار کرے یا دل میں اللہ پر ناراض ہو یا زبان سے اللہ کا شکوہ کرے۔ ایسا شخص مفلسی کے امتحان میں ناکام ہے۔
(4) مسیح دجال ایک خاص شخص ہے جو قیابت کے قریب ظاہر ہوگا اور خدائی کا دعویٰ کرے گا۔ جو شخص اس کا ساتھ دے گا اسے دنیا کے مال کی فراوانی اور راحت حاصل ہوگی، جو اس کے دعوے کو سچ ماننے سے انکار کرے گا اس پر مصیبتیں آئیں گی اور مال و دولت سے محروم ہو جائے گا۔ بہت سےلوگ دولت کے لالچ میں یا مفلسی کے ڈر سے اس کے ساتھی بن جائیں گے اور ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ بہت سے لوگ اس کے عجیب و غریب شعبدے دیکھ کر اس کے دعوے کو سچ مان لیں گے، اس لیے نبی ﷺ نے تفصیل سے اس کے بارے میں بیان کیا ہے تا کہ مومن اپنا ایمان محفوظ رکھ سکیں۔ آخر کار وہ سچے مسیح ، یعنی حضرت عیسیٰ ؑ کے ہاتھوں فلسطین کے ملک میں لد کے مقام پر قتل ہوگا۔
(5) غلطیوں اور گناہوں کا تعلق جہنم کی آگ سے ہے، اس لیے انہیں آگ سے تشبیہ دے کر پانی اور برف سے دھونے کی دعا کی جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دل کو گناہوں سے پاک صاف کر کے اطمینان اور سکینت کی ٹھنڈک عطا فرمادے ۔
(6) سُستی انسان کو بہت سی نیکیوں اور دنیا و آخرت کے فوائد سے محروم کر دیتی ہے۔ مومن کو نیکی کے معاملے میں ہوشیار ہونا چاہیے۔
(7) انتہائی بڑھاپے سےعمر کا وہ حصہ مراد ہے جب انسان دوسروں کا محتاج ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کی ہر قوت کمزور ہو جاتی ہے، اس لیے وہ پہلے کی طرح نیکیاں نہیں کر سکتا۔
(8) تاوان سےمراد کسی ایسی ادائیگی کا لازم ہونا ہے جو ناگوار اور مشکل ہو، مثلاً: غیر ارادی طور پر کسی کا نقصان ہو جائے اور وہ نقصان پورا کرنا پڑے یا غیرارادی طور پر قتل ہو جائے جس کا خون بہا دینا پڑے یا کسی جرم کا ارتکاب ہو جائے اور اس کا جر مانہ ادا کرنا پڑے۔ دعا میں ایسی تمام صورتوں سے پناہ مانگی گئی ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه
الترمذي) .
إسناده: حدثنا إبراهيم بن موسى الرازي: أخبرنا عيسى: ثنا هشام عن أبيه
عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين ، وقد أخرجاه كما يأتي.
وعيسى: هو ابن يونس السَّبِيعي.
والحديث أخرجه البخاري (11/147- 148 و 152) ، ومسلم (6/75) ،
والترمذي (3489) - وصححه-، والنسائي (2/315- 316 و 316) ، وابن ماجه
(2/432) ، وأحمد (6/57 و 207) من طرق عن هشام بن عروة... به أتم منه.
واستدركه الحاكم (1/541) ! فوهم!