تشریح:
(1) یہ حدیث حدیث جبرئیل ؑ کے نام سے مشہور ہے، اس میں دین کے اہم مسائل مذکور ہیں۔ اس میں عبادات بھی ہیں، دل اور باقی جسم کے اعمال بھی، واجبات، سنن اور مستحبات بھی اور ممنوع اور مکروہ امور بھی۔
(2) اسلام سے ظاہری اعمال مراد ہیں جن کو دیکھ کر کسی کے مسلم یا غیر مسلم ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اور ایمان سے قلبی تصدیق و یقین مراد ہے جس پر آخرت مین نجات کا دارومدار ہے۔ احسان بھی ایمان ہی کا اعلیٰ درجہ ہے جس کےسبب عبادت میں حسن پیدا ہوتا ہے۔
(3) اکثر اوقات جب ایمان کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے باطنی تصدیق کے ساتھ ساتھ ظاہری اعمال بھی مراد ہوتے ہیں۔ اسی طرح اسلام سے وہ اسلام مراد ہوتا ہے جس سے آخرت میں نجات حاصل ہو گی، یعنی دلی تصدیق کی بنیاد پر نیک اعمال کی انجام دہی، اس لحاظ سے ایمان اور اسلام ہم معنی ہو جاتے ہیں جب کہ الگ الگ ذکر ہوں، البتہ جب کسی مقام پر ایمان اور اسلام دونوں اکھٹے مذکور ہوں تو ایمان سے قلبی تصدیق مراد ہوتی ہے اور اسلام سے ظاہری اطاعت کے اعمال جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قالَتِ الأَعرابُ ءامَنّا قُل لَم تُؤمِنوا وَلـكِن قولوا أَسلَمنا﴾ (الحجرات:14) ’’بدو کہتے ہیں ہم ایمان لائے، آپ کہہ دیجئے (حقیقت میں) تم ایمان نہیں لائے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام لائے‘‘ (مخالفت چھوڑ کر مطیع ہو گئے۔)
(4) اللہ کی عبادت اس طرح کرنا جیسے کہ اللہ کی ذات رو برو ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قلبی توجہ، نابت، خشوع، خوف و رجا وغیرہ کی کیفیات اپنے کمال پر ہوں، ورنہ اللہ کی زیارت دنیا میں رہتے ہوئے ممکن نہیں، کوئی مخلوق اسے برداشت نہیں کر سکتی، البتہ جنت میں مومنوں کو اللہ کا دیدار نصیب ہو گا، اس میں کوئی شک نہیں، قرآن و حدیث کی واضح نصوص میں اس کی صراحت موجود ہے، البتہ اس کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ دیکھیے (صحيح البخاري، حديث:7437 اور صحيح مسلم، حديث: 182)
(5) قیامت قائم ہونے کا وقت بالتعيين کوئی نہیں جانتا، پیغمبر نہ فرشتے، صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے کیونکہ وہی علام الغیوب ہے۔
(6) قیامت کی بہت سی علامات حدیثوں میں وارد ہیں، ان میں سے کچھ قیامت سے کافی پہلے واقع ہو چکی ہیں، مثلا: بعثت نبوی، ارض حجاز سے ظاہر ہونے والی آگ، جس سے شام کے شہر بصری میں بھی روشنی ہو گئی، یہ واقعہ 654 ھ میں پیش آیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (فتح الباري شرح صحيح البخاري، كتاب الفتن، باب خروج النار) اور بعض ابھی ظاہر ہونے والی ہیں، مثلا: ظہور دجال اور امام مہدی کا ظہور، نزول مسیح علیہ السلام اور یاجوج ماجوج کا خروج۔ یہ بڑی بڑی علامات ہیں، زیر نظر حدیث میں چھوٹی علامات ذکر کی گئی ہیں۔
(7) (أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا) لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی اس جملے کی وضاحت کئی طرح سے کی گئی ہے:
(ا) ایک مطلب یہ ہے کہ لونڈیوں کی کثرت ہو جائے گی اور لونڈیوں سے جو اولاد ہو گی، وہ آقا کی اولاد ہونے کی وجہ سے آقا کے حکم میں ہو گی جبکہ ان کی ماں لونڈی ہی کہلائے گی اور بیٹی اپنی ماں کی مالک قرار دی جائے گی۔ حضرت وکیع رحمۃ اللہ علیہ کا قول اسی طرف اشارہ کرتا ہے۔
(ب) ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اولاد اپنے والدین کا ادب و احترام کرنے کے بجائے ان سے گستاخی اور سرکشی کا رویہ رکھے گی اور ان پر اس طرح حکم چلائے گی جس طرح آقا اپنے غلاموں اور لونڈیوں سے درشت سلوک روا رکھتے ہیں۔
(ج) ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ اس حدیث میں جدید دور میں پیدا ہونے والے بعض مسائل کی طرف اشارہ ہے، مثلا: ایسے تجربات کیے گئے ہیں جن میں مذکر اور مونث کے مادہ تولید کو مونث کے جسم سے باہر ملا کر تجربہ گاہ میں جنین وجود میں لایا گیا جسے بعد میں کسی اور مونث کے جسم میں رکھ کر تخلیقی مراحل کی تکمیل ہوئی۔ اس طرح مولود جس کے جسم میں پیدا ہوا، اس کے مادہ تولید سے پیدا نہیں ہوا۔ ان تجربات کے نتیجے میں یہ عین ممکن ہے کہ کوئی دولت مند میاں بیوی اپنا جنین کسی غریب عورت کے جسم میں پروان چڑھائیں جو تھوڑی اجرت کے بدلے مشقت برداشت کرنے پر تیار ہو سکتی ہے، جب بچہ پیدا ہو گا تو دولت مند میاں بیوی ہی اس کے ماں باپ مانے جائیں گے، اور جس عورت نے اس کی پیدائش کی تکلیف اٹھائی ہو گی، وہ اجیر یا مملوک ہی رہے گی اور پیدا ہونے والا بچہ اسے اپنی ماں نہیں بلکہ نوکرانی ہی تصور کرے گا اور خود وہ عورت بھی اپنی یہی حیثیت سمجھے گی۔ موجودہ دور میں اخلاقی اقدار جس تیزی سے روبہ زوال ہیں، اس کے مدنظر یہ کچھ بعید نہیں کہ عملا یہ صورت رواج پا جائے۔ واللہ أعلم. یورپ میں، جہاں عفت و پاک دامنی کا تصور ختم ہو گیا ہے، اب اس قسم کی صورتیں اختیار کی جانے لگی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسلامی معاشروں کو اس اخلاقی پستی سے محفوظ رکھے۔
(8) جب غربت کے بعد دولت نصیب ہو تو صحیح طرز عمل یہ ہے کہ اللہ کی اس نعمت کا شکر کرتے ہوئے ناداروں کی ضروریات بھی پوری کی جائیں تاکہ اخروی فوائد بھی حاصل ہو سکیں، جیسے قارون کو اس کی قوم کے افراد نے کہا تھا: ﴿وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّـهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّـهُ إِلَيْكَ﴾ (القصص:77) ’’اور جو کچھ اللہ نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول اور جیسے اللہ نے تجھ پر احسان کیا ہے تو بھی (دوسروں پر) احسان کر۔‘‘ (9) محض اپنے فائدے اور راحت کے لیے اور فخرومباہات کے لیے لمبی چوڑی عمارتیں بنانا درست نہیں۔
(10) عقائد اور اعمال یہ سب دین ہے، لہذا اخروی نجات کے لیے صحیح عقیدہ اور صحیح عمل دونوں ضروری ہیں۔
(11) تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ ابد تک جو کچھ ہو گا اللہ کو وہ سب کچھ پہلے سے معلوم ہے۔ اب جو کچھ ہوتا ہے وہ اس کے اس علم کے مطابق ہوتا ہے جو اس نے لکھ رکھا ہے۔ تقدیر کے اچھے برے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے لیے بظاہر خیر ہے، مثلا: تندرستی، خوشحالی، پیداوار کی کثرت اور فراوانی یا جسے ہم شر قرار دیتے ہیں، مثلا: قحط سالی، آلام و مصائب، یہ سب کچھ اس کی مرضی اور حکمت کے مطابق ہو رہا ہے۔ اسے خیر و شر مخلوق کے لحاظ سے فرمایا گیا ہے ورنہ اللہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت و مصلحت ہوتی ہے، اس کے لحاظ سے وہ خیر ہی ہوتا ہے۔
(12) جبریل امین علیہ السلام کا قرآنی وحی لے كر آنا تو مشہور و معروف ہے، علاوہ ازیں دین اسلام کے مسائل کی توضیح و تعلیم کے لیے جبریل علیہ السلام کا آنا بھی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
(13) دینی و اسلامی مسائل سیکھنے کے متعدد طریقے ہیں، ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ سوالات و جوابات کی مجلس و نشست قائم کی جائے، اس انداز سے مسائل خوب ذہن نشین ہو جاتے ہیں۔
(14) سائل کو مسئول کے سامنے گھٹنے ٹیک کر ادب و احترام سے بیٹھنا چاہیے اور انداز گفتگو نہایت نرم اور مؤدبانہ ہونا چاہیے۔
(15) جبریل امین علیہ السلام نے سفید لباس اختیار کیا تھا، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفید لباس پر رغبت دلائی اور خود بھی پسند کیا حتی کہ مُردوں کے لیے بھی سفید کفن کو منتخب کیا۔ (جَامِعُ التِّرْمَذِي، الأدبُ، بَابَ مَا جَاءَ فِي لبسِ الْبيَاضِ، حَدِيْث:2810)
الحکم التفصیلی:
قلت : فهذه الزيادة شاذة من جهة الرواية وإن كانت صحيحة في المعنى من حيث الدراية لأن الأكل والذهب أعظم وأخطر من الشرب والفضة كما هو ظاهر على أن للفضة والذهب طريقا أخرى عند مسلم من رواية عثمان بن مرة حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن عن خالته أم سلمة قالت : فذكر . بلفظ : " من شرب في إناء من ذهب أو فضة فإنما يجرجر في بطنه نارا من جهنم " . وأما حديث عائشة فأخرجه أحمد ( 6 / 98 ) وابن ماجه ( 3415 ) من طريق سعد بن ابراهيم عن نافع عن امرأة ابن عمر منها مرفرعا مثل حديث أم سلمة عند الجماعة . قلت : ورجاله ثقات رجال الصحيحين وامرأة ابن عمر اسمها صفية بنت أ بى عبيد وقد أخرجا لها ايضا فالإسناد صحيح . وأما حديث عبد الله بن عباس فأخرجه الطبراني في " المعجم الصغير " ( ص 63 ) وفي " الكبير " أيضا عن سليم بن مسلم الخشاب المكى ثنا النضر ابن عربي عن عكرمة عنه مرفوعا به وزاد : " الذهب " وهذا إسناد ضعيف من أجل الخشاب هذا وأما قول الهيثمي ( 5 / 77 ) : " رواه أ بو يعلى والطبراني في الثلاثة . وفيه محمد بن يحيى بن أبى سمينة وقد وثقه أبو حاتم وابن حبان وغيرهما وفبه كلام لا يضر . وبقية رجاله ثقات فلا يخلو من خطا . لأن ابن أبي سمينة هذا ليس له ذكر في " الصغير " و " الكبير " وفيهما من عرفت ضعفه فلعل ذلك الراوي في اسناد أبى يعلى فقط فإن ثبت ذلك فهي طريق أخرى للحديث تشهد لهذه الطريق الواهية . وله طريق أخرى مخنصرا . أخرجه أحمد ( 1 / 321 ) عن خصيف عن سعيد ابن جبير وعكرمة مولى ابن عباس عن ابن عباس قال : نهى النبي صلى الله عليه وسلم أن يشرب
(1/69)
________________________________________
في إناء الفضة . واسناده حسن في الشواهد والمتابعات وقال الهيثمى : " رواه أحمد والطبراني في الأوسط ورجالهما رجال الصحيح " . كذا قال ! وأما حديث ابن عمر فله طريقان :
الأول : عن العلاء بن برد بن سنان عن أبيه عن نافع عنه مرفوعا بلفظ : " من شرب في إناء من ذهب أو إناء من فضة فإنما . . . " أخرجه الطبراني في " الصغير " ( ص 117 ) وقال : " لم يروه عن برد إلا ابنه العلاء " . قلت : وهو ضعيف وأما أبوه فصدوق
الثانية : عن يحيى بن محمد الجاري ثنا زكريا بن إبراهيم بن عبد الله بن مطيع عن أبيه عنه مرفوعا بلفظ الذي قبله وزاد " أو إناء فيه شئ من ذلك " . أ خرجه ابن بشران في " الأمالي " ( ق 8 / 1 ) والجرجاني في تاريخه ( 109 ) . وكذا الدارقطني في سننه ( ص 15 ) وقال : " إسناده حسن " ! كذا قال وهو مردود فإن الجاري هذا قال البخاري : " يتكلمون فيه " وأما ابن عدى فقال : " ليس به بأس " ولما أورده الذهبي في " الميزان " ساق له هذا الحديث وقال : " هذا حديث منكر وزكريا ليس بالمشهور " . قلت : ومثله أبوه إبراهيم قال الحافظ في " الفتح " ( 10 / 87 ) : " حديث معلول بجهالة حال إبراهيم بن مطيع وولده قال البيهقي : الصواب ما رواه عبيدالله العمري عن نافع عن ابن عمر موقوفا أنه كان يشرب في قدح فيه ضبة فضة " . وإسناد هذا الموقوف على شرط الصحيح كما قال في " التلخيص " ( ص 20 ) ولكنه مخالف للحديث الآتي بعده في الكتاب فلا حجة فيه