تشریح:
(1) یہ حدیث موقوف ہے یعنی رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نہیں بلکہ ایک صحابی (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) کے متعدد فرامین ہیں لیکن انہوں نے جو باتیں فرمائی ہیں وہ رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہ کر ہی سیکھی ہیں۔ خصوصاً آخری مسئلہ گزشتہ احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد مبارک کے طور پر بھی بیان ہو چکا ہے۔
(2) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی نظر میں صحیح مسلمان وہ ہے جو مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کا عادی ہو۔ ورنہ مرنے کے بعد جب وہ اللہ تعالی کے حضور پیش ہوگا تو مسلم کی حیثیت سے پیش نہیں ہوگا۔
(3) (سُنَنُ الهُدَي) ہدایت کے کام سُنَن سُنَّةُ كی جمع ہے اس کا مطلب وہ راستہ جس پر بہت لوگ چلتے ہوں۔ اس لیے رسم ورداج کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ نماز باجماعت مسلمانوں کی علامت اور شعار ہےاور مسجد کا وجود ثابت کرتا ہے۔ کہ اس بستی میں مسلمان رہائش پذیر ہیں۔ اگر نماز باجماعت کا رواج ختم ہوجائے تو مسلم ار غیر مسلم آبادی میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔
(4) چونکہ نمازباجماعت اسلام کی علامت ہے، اس لیے مومن اس میں کوتاہی نہیں کرسکتا۔ صحابۂ کرام ؓ کی نظر میں باجماعت نماز کی اہمیت سب بڑھ کر تھی۔ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنر وں کو تحریری طور پر جو ہدایت جاری کی تھیں ان میں فرمایا تھا: (إِنَّ أَهَمَّ أَمْرَكُمْ عِنْدِي الصَّلَاة۔۔۔۔) میری نظر میں تمھارا سب سے اہم کام نماز ہے۔ جو شخص نماز کی محافظت کرتا ہے وہ اپنے دین کو محفوظ کرلیتا ہے۔ اور جو شخص اسے ضائع کردیتا ہے وہ دوسرے فرائض میں زیادہ کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے۔ (موطا للإمام مالک، باب وقوت الصلوۃ، حدیث:6)
(5) صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا نماز باجماعت میں شریک ہونے کے لیے اہتمام بھی ثابت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک کسی شدید عذر کے بغیر نماز باجماعت سے پیچھے رہنا جائز نہ تھا۔اس لیے جو بیمار آدمی چل کر مسجد میں نہیں آ سکتا تھا وہ دوسروں کے سہارے مسجد میں آتا تھا لیکن گھر میں نماز نہیں پڑھتا تھا۔
(6) اس میں سنت کی پیروی کی ترغیب ہے کیونکہ سنت سے گریز گمراہی کا باعث ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح. وأخرجه مسلم وأبو عوانة في "صحيحيهما"؛ إلا
أنهما قالا: لضللتم ؛ بدل: لكفرتم) .
إسناده: حدثنا هارون بن عَبَّاد الأزدي: ثنا وكيع عن المسعودي عن علي بن
الأقمر عن أبي الأحوص عن عبد الله بن مسعود.
(3/64)
قلت: وهذا إسناد ضعيف؛ هارون بن عباد الأزدي لم يذكروا توثيقه عن أحد؛
وقد روى عنه محمد بن وضاح القرطبي أيضا؛ فهو مجهول الحال.
والمسعودي ضعيف؛ لاختلاطه كما قد سبق. لكن قال عبد الله بن أحمد عن
أبيه:
" سماع وكيع من المسعودي قديم، وأبو نعيم أيضا ".
فهذا من صحيح حديثه؛ لأنه من يواية وكيع عنه كما ترى؛ لولا أن الراوي
عن وكيع مجهول.
لكن قد توبع عليه كما يأتي؛ فالحديث صحيح على كل حال.
والحديث أخرجه النسائي (1/136) - من طريق عبد الله بن المبارك-، وأحمد
(1/455) - من طريق أبي قَطَن (واسمه عمرو بن الهيثم) - كلاهما عن
المسعودي... به.
وأخرجه الطيالسي في "مسنده " (رقم 313) : حدثنا المسعودي... به.
وقد تابعه أخوه أبو العميس- واسمه عتبة بن عبد الله المسعودي- عن علي
ابن الأقمر... به.
أخرجه مسلم (2/124) ، وأبو عوانة (2/7) ، والبيهقي (3/58- 59) ،
وأحمد (1/414-415) .
وتابع علياً عن أبي الأحوص: إبراهيم بن مسلم الهَجَرِي: عند ابن ماجه
(1/261) ، وأحمد (1/382) .
وكل هؤلاء قالوا: لضللتم؛ بدل: لكفرتم.
فقد تفرد بها المؤلف.
الإرواء (488)