قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن أبي داؤد: كِتَابُ الْمَنَاسِكِ (بَابُ فِي الْإِقْرَانِ)

حکم : صحيح ق لكن قوله وبدأ رسول الله صلى الله عليه وسلم فأهل بالعمرة ثم أهل بالحج شاذ 

1805. حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنِ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ تَمَتَّعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَأَهْدَى وَسَاقَ مَعَهُ الْهَدْيَ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ وَبَدَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ ثُمَّ أَهَلَّ بِالْحَجِّ وَتَمَتَّعَ النَّاسُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَكَانَ مِنْ النَّاسِ مَنْ أَهْدَى وَسَاقَ الْهَدْيَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ يُهْدِ فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ قَالَ لِلنَّاسِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ أَهْدَى فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ لَهُ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَجَّهُ وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَهْدَى فَلْيَطُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَلْيُقَصِّرْ وَلْيَحْلِلْ ثُمَّ لِيُهِلَّ بِالْحَجِّ وَلْيُهْدِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ هَدْيًا فَلْيَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةً إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ وَطَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ فَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ أَوَّلَ شَيْءٍ ثُمَّ خَبَّ ثَلَاثَةَ أَطْوَافٍ مِنْ السَّبْعِ وَمَشَى أَرْبَعَةَ أَطْوَافٍ ثُمَّ رَكَعَ حِينَ قَضَى طَوَافَهُ بِالْبَيْتِ عِنْدَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ فَانْصَرَفَ فَأَتَى الصَّفَا فَطَافَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ سَبْعَةَ أَطْوَافٍ ثُمَّ لَمْ يُحْلِلْ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى قَضَى حَجَّهُ وَنَحَرَ هَدْيَهُ يَوْمَ النَّحْرِ وَأَفَاضَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ ثُمَّ حَلَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ وَفَعَلَ النَّاسُ مِثْلَ مَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَهْدَى وَسَاقَ الْهَدْيَ مِنْ النَّاسِ

مترجم:

1805.

سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجتہ الوداع میں عمرے کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا۔ (تمتع کا لغوی معنی استفادہ ہے۔) آپ نے ذوالحلیفہ سے قربانی لی اور اپنے ساتھ لے گئے۔ ابتداء میں رسول اللہ ﷺ نے عمرے کا تلبیہ کہا اور پھر حج کا۔ اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ عمرے کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا۔ لوگوں میں سے کچھ تو وہ تھے جو قربانیاں اپنے ساتھ لے گئے اور کچھ وہ تھے جو نہ لے گئے۔ جب رسول اللہ ﷺ مکہ پہنچے تو لوگوں سے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص قربانی لایا ہے اس کے لیے حرام ہونے والی کوئی شے حلال نہیں حتیٰ کہ اپنا حج مکمل کر لے۔ لیکن جو قربانی نہیں لایا ہے تو اسے چاہیئے کہ بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرے اور اس کے بعد اپنے بال کتروا کر حلال ہو جائے۔ پھر اس کے بعد حج کا احرام باندھے اور قربانی دے۔ اور جو قربانی کی استطاعت نہ پائے تو وہ حج کے دونوں میں تین دن روزے رکھے اور مزید سات دن اپنے اہل میں واپس لوٹ کر رکھے۔“ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ پہنچنے پر طواف کیا اور سب سے پہلے رکن (حجر اسود) کو بوسہ دیا۔ پھر طواف کے سات چکروں میں سے (پہلے) تین چکروں میں آہستہ آہستہ دوڑے اور باقی چار میں (عام رفتار سے) چلے۔ طواف کے بعد آپ نے مقام ابراہیم کے پاس دو رکعتیں پڑھیں، پھر سلام پھیرا۔ پھر آپ صفا کی طرف آئے اور صفا مروہ پر سات چکر لگائے۔ پھر آپ پر حرام ہونے والی چیزوں میں سے کوئی بھی چیز حلال نہ ہوئی۔ (اسی طرح احرام ہی میں رہے) حتیٰ کہ اپنا حج مکمل کیا۔ دسویں تاریخ کو قربانی کی اور طواف افاضہ کیا، پھر آپ کے لیے تمام چیزیں حلال ہو گئیں جو بحالت احرام، حرام تھیں۔ اور دیگر لوگوں نے بھی جو قربانیاں اپنے ساتھ لائے تھے اسی طرح کیا جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا۔