قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ الْإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللهِ ﷺ إِلَى السَّمَاوَاتِ، وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

163. وَحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو ذَرٍّ، يُحَدِّثُ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " فُرِجَ سَقْفُ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَرَجَ صَدْرِي، ثُمَّ غَسَلَهُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي، ثُمَّ أَطْبَقَهُ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ، فَلَمَّا جِئْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا قَالَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ لِخَازِنِ السَّمَاءِ الدُّنْيَا: افْتَحْ، قَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا جِبْرِيلُ، قَالَ: هَلْ مَعَكَ أَحَدٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، مَعِيَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، قَالَ: فَأُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَفَتَحَ، قَالَ: فَلَمَّا عَلَوْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا، فَإِذَا رَجُلٌ عَنْ يَمِينِهِ أَسْوِدَةٌ، وَعَنْ يَسَارِهِ أَسْوِدَةٌ، قَالَ: فَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى، قَالَ: فَقَالَ مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ، وَالِابْنِ الصَّالِحِ "، قَالَ: " قُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ، مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا آدَمُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَذِهِ الْأَسْوِدَةُ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ نَسَمُ بَنِيهِ، فَأَهْلُ الْيَمِينِ أَهْلُ الْجَنَّةِ، وَالْأَسْوِدَةُ الَّتِي عَنْ شِمَالِهِ أَهْلُ النَّارِ، فَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى "، قَالَ: " ثُمَّ عَرَجَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الثَّانِيَةَ، فَقَالَ لِخَازِنِهَا: افْتَحْ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ خَازِنُهَا مِثْلَ مَا قَالَ خَازِنُ السَّمَاءِ الدُّنْيَا: فَفَتَحَ "، فَقَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، فَذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ فِي السَّمَاوَاتِ آدَمَ، وَإِدْرِيسَ، وَعِيسَى، وَمُوسَى، وَإِبْرَاهِيمَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ، وَلَمْ يُثْبِتْ كَيْفَ مَنَازِلُهُمْ، غَيْرَ أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّهُ قَدْ وَجَدَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا، وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، قَالَ: فَلَمَّا مَرَّ جِبْرِيلُ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِدْرِيسَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِ قَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ، وَالْأَخِ الصَّالِحِ، قَالَ: " ثُمَّ مَرَّ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: هَذَا إِدْرِيسُ، قَالَ: ثُمَّ مَرَرْتُ بِمُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ، وَالْأَخِ الصَّالِحِ "، قَالَ: " قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا مُوسَى "، قَالَ: " ثُمَّ مَرَرْتُ بِعِيسَى، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ، وَالْأَخِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ "، قَالَ: " ثُمَّ مَرَرْتُ بِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ، وَالِابْنِ الصَّالِحِ "، قَالَ: " قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا إِبْرَاهِيمُ "، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ، وَأَخْبَرَنِي ابْنُ حَزْمٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا حَبَّةَ الْأَنْصَارِيَّ، يَقُولَانِ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ثُمَّ عَرَجَ بِي حَتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوًى أَسْمَعُ فِيهِ صَرِيفَ الْأَقْلَامِ»، قَالَ ابْنُ حَزْمٍ، وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَفَرَضَ اللهُ عَلَى أُمَّتِي خَمْسِينَ صَلَاةً»، قَالَ: فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى أَمُرَّ بِمُوسَى، فَقَالَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ: مَاذَا فَرَضَ رَبُّكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسِينَ صَلَاةً، قَالَ لِي مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ: فَرَاجِعْ رَبَّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، قَالَ: فَرَاجَعْتُ رَبِّي، فَوَضَعَ شَطْرَهَا، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَأَخْبَرْتُهُ قَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، قَالَ: فَرَاجَعْتُ رَبِّي، فَقَالَ: هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ، فَقُلْتُ: قَدْ اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى نَأْتِيَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى فَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لَا أَدْرِي مَا هِيَ؟ قَالَ: ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ، فَإِذَا فِيهَا جَنَابِذُ اللُّؤْلُؤَ، وَإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْكُ».

مترجم:

163.

ابن شہابؒ نے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت ابوذرؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے بتایا: ’’میں مکہ میں تھا تو میرے گھر کی چھت کھولی گئی، جبریل علیہ السلام اترے، میرا سینہ چاک کیا، پھر اسے زم زم کے پانی سے دھویا، پھر سونے کا طشت لائے، جو حکمت اور ایمان سے لبریز تھا، اسے میرے سینے میں انڈیل دیا، پھر اس کو جوڑ دیا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر آسمان کی طرف بلند ہوئے، جب ہم سب سے نچلے (پہلے) آسمان پر پہنچے تو جبریل علیہ السلام  نے (اس) نچلے آسمان کے دربان سے کہا: دروازہ کھولو۔ اس نے کہا: یہ کون ہیں؟ کہا: یہ جبریل ہے۔ پوچھا: کیا تیرے ساتھ کوئی ہے؟ کہا: ہاں! میرے ساتھ محمد ﷺ ہیں۔ اس نے  پوچھا: کیا ان کو بلایا گیا ہے؟ کہا: ہاں۔ پھر اس نے دروازہ کھولا، آپ ﷺ نے فرمایا: کہ جب ہم آسمان دنیا پر پہنچے، تو دیکھا کہ ایک آدمی ہے اس کے دائیں طرف بھی بہت سی مخلوق ہے اور اس کے بائیں طرف بھی بہت سی مخلوق ہے، جب وہ آدمی اپنے دائیں طرف دیکھتا ہے تو ہنستا ہے، اور اپنے بائیں طرف دیکھتا ہے تو روتا ہے۔ اس نے کہا: خوش آمدید! صالح نبی اورصالح بیٹےکو۔ میں نے جبریل ؑ سے پوچھا: یہ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: یہ آدم علی السلام ہیں۔ اور ان کے دائیں اور بائیں طرف کے ہیولے انکی اولاد کی روحیں ہیں، دائیں طرف والے جنتی ہیں اور بائیں طرف والے ہیولے دوزخیوں کے ہیں۔ جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتے ہیں تو ہنستے ہیں، اور بائیں طرف دیکھتے ہیں تو روتے ہیں۔ پھر جبریل علیہ السلام مجھے اوپر کیطرف لے کر چلے یہاں تک کہ ہم دوسرے آسمان تک پہنچ گئے تو اسکے خازن (پہرے دار) سے کہا: دروازہ کھولو۔ اسکے خازن نے بھی پہلے آسمان والے کیطرح بات کی اور دروازہ کھول دیا۔                                                                                                                                حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ مجھے آسمانوں پر آدم ؑ، ادریس ؑ، موسیٰ ؑ اور ابراہیم ؑ ملے (اختصار سے بتاتے ہوئے) انہوں (ابو ذرؓ) نے یہ تعیین نہیں کی کہ ان کی منزلیں کیسے تھیں؟ البتہ یہ بتایا کہ آدم علیہ السلام آپ کو پہلے آسمان پر ملے، اور ابراہیم علیہ السلام چھٹے آسمان پر (یہ کسی راوی کا وہم ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے آپ ﷺ کی ملاقات ساتویں آسمان پر ہوئی)۔ فرمایا: جب جبریل علیہ السلام اور رسول اللہ ﷺ ادریس علیہ السلام  کے پاس سے گزرے تو انہوں نے کہا: صالح نبی اور صالح بھائی کو خوش آمدید! پھر وہ آ گے گزرے تو میں نے ‎پوچھا: یہ کون ہیں؟ تو (جبریلؑ نے) کہا: یہ ادریس ؑ ہیں۔ پھر میں موسیٰ ؑ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے نے کہا: صالح نبی اور صالح بھائی کو خوش آمدید! فرمایا: میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ موسیٰ ؑ ہیں، پھر میں عیسیٰ ؑ کے پاس سے گزرا، انہوں نے کہا: صالح نبی اور صالح بھائی کو خوش آمدید۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ کہا:عیسیٰ بن مریم ؑ ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر میں ابراہیم ؑ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا: صالح نبی اور صالح بیٹے، مرحبا! میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ کہا: یہ ابراہیم ؑ ہیں۔‘‘ ابن شہابؒ نے کہا: مجھے ابن حزمؒ نے بتایا کہ ابن عباسؓ اور ابو حبَّہ انصاری ؓ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر (جبریلؑ) مجھے (اور) اوپر لے گئے حتی کہ میں ایک اونچی جگہ کے سامنے نمودار ہوا۔ میں اس کے اندر سے قلموں کی آواز سن رہا تھا۔‘‘ ابن حزمؒ اور انس بن مالک ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، میں یہ (حکم) لے کر واپس ہوا یہاں تک کہ موسیٰ ؑ کے پاس سے گزرا تو موسیٰ ؑ نے پوچھا: آپ کے رب نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہیں۔؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے جواب دیا: ان پر پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ موسیٰ ؑ نے مجھ سے کہا: اپنے رب کی طرف رجوع کریں، کیونکہ آپ کی امت اس کی طاقت نہیں رکھے گی۔ فرمایا: اس پر میں نے اپنے رب سے رجوع کیا، تو اس نے اس کا ایک حصہ مجھ سے کم کر دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں موسیٰ ؑ کی طرف واپس آیا اور انہیں بتایا۔ انہوں نے کہا: اپنے رب کی طرف رجوع کریں، کیونکہ آپ کی امت اس کی (بھی) طاقت نہیں رکھے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے اپنے رب کی طرف رجوع کیا، تو اس نے فرمایا: یہ پانچ ہیں اور یہی پچاس ہیں، میرے ہاں حکم بدلا نہیں کرتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں لوٹ کر موسیٰ ﷺ کی طر ف آیا تو انہوں نے کہا: اپنے رب کی طرف رجوع کریں۔ تو میں نے کہا: (بار بارسوال کرنے پر) میں اپنے رب سے شرمندہ ہوا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر جبریل ؑ مجھے لے کر چلے، یہاں تک کہ ہم سدرۃ المنتہی پر پہنچ گئے، تو اس کو (ایسے ایسے) رنگوں نے ڈھانپ لیا کہ میں نہیں جانتا وہ کیا تھے؟ پھر مجھے جنت کے اندر لے جایا گیا، اس میں گنبد موتیوں کے تھے اور اس کی مٹی کستوری تھی۔‘‘