تشریح:
(1) بعض حضرات کا خیال ہے کہ میت کے لواحقین کو وفات کی اطلاع نہیں دینی چاہیے، کیونکہ ایسا کرنا انہیں پریشان اور رنج و الم میں مبتلا کرنا ہے، پھر احادیث میں کسی کے مرنے کا اعلان کرنا منع آیا ہے۔ امام بخاری ؓ نے ثابت کیا ہے کہ اہل میت کو وفات کی اطلاع دینا جائز ہے۔ اگرچہ انہیں پریشانی تو ہوتی ہے لیکن مصلحت کا تقاضا ہے کہ ان کی پریشانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں مطلع کر دیا جائے تاکہ وہ ان کی تجہیز و تکفین اور تدفین وغیرہ کا بندوبست کریں۔ لوگوں کو اطلاع کرنے سے نماز جنازہ میں بکثرت لوگ شامل ہوں گے اور زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی مغفرت کے لیے اللہ سے دعا کریں گے، نیز اس کی وصیت وغیرہ پر عمل کا بھی موقع میسر آئے گا۔ اس کے علاوہ متعدد ایسے احکام ہیں جن پر عمل اسی صورت ممکن ہے جب اس کے عزیز و اقارب کو وفات کی اطلاع کی جائے۔ اس کے متعلق حکم امتناعی کی وضاحت ہم آئندہ حدیث کے تحت کریں گے۔
(2) واضح رہے کہ نجاشی ملک حبشہ کے فرماں روا کو کہا جاتا تھا۔ جس نجاشی کا حدیث میں ذکر ہے اس کا نام ’’اصحمہ‘‘ تھا اور وہ حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کے ہاتھوں مسلمان ہوا تھا۔ جب رسول اللہ ﷺ 9 ہجری کو جنگ تبوک سے واپس ہوئے تو آپ کو اس کے فوت ہونے کی بذریعہ وحی اطلاع کر دی گئی۔ چونکہ اہل مدینہ کے ساتھ اس کا دینی رشتہ تھا، علاوہ ازیں اس کے عزیز و اقارب بھی مدینہ میں آباد تھے، آپ نے دینی اور خونی رشتے داروں کو اس کے فوت ہونے کی اطلاع دی۔ امام بخاری ؓ نے اس اطلاع سے اپنا عنوان ثابت کیا ہے۔ (فتح الباري: 151/3)