باب: جن مسلمانوں نے غزوئہ احد میں شہادت پائی ان کا بیان۔
)
Sahi-Bukhari:
Military Expeditions led by the Prophet (pbuh) (Al-Maghaazi)
(Chapter: The Muslims who were killed on the day of Uhud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
ان ہی میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ، ابو حذیفہ الیمان ، انس بن نضر اور مصعب بن عمیر ؓ بھی تھے۔
4080.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب میرے والد گرامی شہید ہو گئے تو میں رونے لگا اور ان کے چہرے سے کپڑا ہٹانا چاہا تو نبی ﷺ کے صحابہ کرام ؓ نے مجھے ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ لیکن نبی ﷺ نے منع نہیں فرمایا۔ اور نبی ﷺ نے (آپ کی پھوپھی سے) فرمایا: ’’اس پر مت رو، یا فرمایا: کیوں روتی ہو؟ فرشتے برابر ان کی لاش پر اپنے پروں کا سایہ کیے ہوئے تھے، یہاں تک انہیں اٹھا لیا گیا۔‘‘
تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کی طرف سے انھیں بہت عظمت سے نوازا گیا ہے۔ ان کی شہادت پررونے دھونے یا افسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔ 2۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ کو رونے سے منع نہیں فرمایا۔ لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ کی پھوپھی فاطمہ بنت عمرو ؓ کو رونے سے منع فرمایا۔ صحیح مسلم کی حدیث اس کی تائید کرتی ہے۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ میری پھوپھی حضرت فاطمہ ؓ رونے لگی تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے رونا نہیں چاہیے۔‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6355(2471) وفتح الباري:470/7) بلکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں میں بھی اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث:1244) 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کے چہرے سے کفن ہٹانا جائز ہے بشرط یہ کہ فائدہ ہو بصورت دیگر خلاف اولیٰ ہے کیونکہ ایسا کرنے سے غم وحزن میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے خلاف اولیٰ ہونے پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا منع کرنا بھی دلالت کرتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کا اس نہی پر انکار نہ کرنا بھی اس کی دلیل ہے کہ بلاوجہ میت کا چہرہ نہ کھولا جائے۔ واللہ اعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3927
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4080
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
4080
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
4080
تمہید کتاب
کفار مکہ اور مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رمسلمانوں پر کسے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور ان کے خلاف کیسی کیسی کاروائیاں کیں،ان کی مختصرتفصیل سابقہ اوراق میں بیان ہوچکی ہے۔بالآخر مسلمان ان کی جفاؤں سے تنگ آکر اپنا گھر بار اور مال ومتاع چھوڑ کر مدینہ طیبہ آگئے لیکن یاران ِ طریقت نے پھر بھی مسلمانوں کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ اپنے ظلم وستم سے باز نہ آئے بلکہ یہ دیکھ کر مسلمان ان کی گرفت سے چھوٹنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور مدینہ طیبہ میں انھیں ایک پُرامن جائے قرار مل گئی ہے،ان کا جوش غضب اور بھڑکا اور انھوں نے عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھاجو پہلے ہی مسلمان کے خلاف دانت پیس رہا تھا۔مشرکین نے عبداللہ بن ابی اور اس کے مشرک ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں لکھا:"تم لوگوں نے ہمارے صاحب کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے ،اس لیے ہم اللہ کی قسم اٹھا کر تمھیں کہتے ہیں کہ تم ان لوگوں سے لڑائی کرویا پھر انھیں مدینے سے نکال دو،بصورت دیگر ہم اپنی پوری جمیعت کے ساتھ تم لوگوں پر حملہ کرکے تمہارے تمام مردوں کو قتل کردیں گے اور تمہاری خواتین کو برسرعام رسوا کریں گے۔"( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)پورے عرب میں قریش پیرزادے شمار ہوتے تھے۔بہادری شجاعت اور فصاحت وبلاغت میں وہ بے نظیر تھے۔مناسک حج ادا کرنے والے لوگ بھی پہلے انھیں جھک کر سلام کرتے۔اس بنا پر تمام عرب ان سے ڈرتے تھے ،اس لیے جب یہ خط عبداللہ بن ابی کے پاس پہنچا تو وہ اہل مکہ کے حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔وہ پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے سینے میں کینہ لیے ہوئے تھا کیونکہ اس کی تاجپوشی کی تقریب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف آوری رکاوٹ بنی تھی،چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبرپہنچی توآپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:"قریش کی دھمکی تم پر گہرا اثرکر گئی ہے۔توخوداپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادیناچاہتے ہو قریش تمھیں اس سے زیادہ نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے۔کیا تم اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹوں اوربھائیوں کو قتل کرنا چاہتے ہو؟"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت سن کر یہ لوگ منتشر ہوگئے۔( سنن ابی داؤد الخراج حدیث 3004۔)اس کے بعد قریش نے براہ راست مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ تم مکے سے بحفاظت نکل آنے پر مغرور نہ ہوجاؤ۔ہم یثرب پہنچ کر تمہارا کام تمام کرسکتے ہیں۔ان دھمکیوں کا اثر یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات جاگ کرگزارتے یا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پہرے میں سوتے تھے،چنانچہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے کہ فرمایا:"آج رات میرے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین میں کون جفا کش مرد میرے ہاں پہرہ دے گا؟"اس دوران میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی تو آپ نے فرمایا:"تم کون ہو؟"عرض کی:میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں۔آپ نے فرمایا:" کیسے آناہوا؟"کہا:میرے دل میں آپ کے متعلق خطرہ پیدا ہوا تو میں آپ کے ہاں پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوگیا ہوں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دعادی اورآرام سے سوگئے۔( صحیح البخاری الجھاد والسیر،حدیث 2885۔)یاد رہے کہ پہرے کا یہ انتظام چندراتوں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ مسلسل اوردائمی تھا،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہرہ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی:"اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔"( المائدہ۔67:5۔) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمے سے سرنکالا اور فرمایا:"لوگو!واپس چلے جاؤ۔اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ اٹھا لیا ہے۔"( جامع الترمذی ابواب تفسیر القرآن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3046۔) ایسے پُرخطر حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا:"جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے انھیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی کیونکہ وہ مظلوم ہیں۔"( الحج 38:22۔)جن حالات میں یہ اجازت دی گئی وہ قریش کی سرکشی کے پیداکردہ تھے،اس لیے حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان اپنے تسلط کا دائرہ قریش کی اس تجارتی شاہراہ تک پھیلا دیں جو مکے سے شام تک آتی جاتی تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دو منصوبے تشکیل دیے:1۔جو قبائل اس تجارتی شاہراہ پر واقع تھے ان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا۔2۔اس تجارتی شاہراہ کی جاسوسی کرنے اور اس پرگشتی دستے بھیجنے کا پروگرام بنایا۔یہ آخری منصوبہ سرایا اور غزوات سے تعلق رکھتا ہے۔اس کی تفصیل سے آگاہ کرنے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سال صبر وتحمل سے کام لینے کے بعد"تنگ آمد بجنگ آمد" کے مصداق تلوار اٹھائی ہے۔جبکہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا تھا۔کیا ایسا دشمن جو سامان جنگ مہیا کرکے جنگ کرنے پر تلاہوا ہے ایسے دشمن کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیاجاتا۔آج بھی متحارب حکومتیں سامان جنگ کو روکنا ضروریات جنگ میں شمار کرتی ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں صرف نوجنگیں ایسی ہیں جن میں قتل وقتال کی نوبت آئی اور طرفین کے مقتولین کی تعداددس ہزار سے زیادہ نہیں جبکہ آج تہذیب وتمدن کے دعو ے دار ایک گھنٹے میں لاکھوں جانیں ضائع کردیتے ہیں۔اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اور قتل وغارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔لغوی طور پر مغازی،مغزی کی جمع ہے۔اورمغزی باب غزا یغزو کامصدر میمی ہے۔ظرف مکان بھی ممکن ہے،یعنی غزوے کی جگہ لیکن اس مقام پر مصدری معنی مراد ہیں۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوہ کے معنی قصد کے ہیں اور کلام کے مقصد کو مغزی کہا جاتا ہے۔یہاں مغزی سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود کفار کا قصد کرنا یا ان کی طرف لشکر بھیجنا ہے اور کفار کا قصد بھی عام معنوں میں ہے کہ آپ ان کے شہروں کاقصد کریں یا ان مقامات کا جہاں انھوں نے پڑاؤ کیا ہوجیسا کہ غزوہ اُحد اور غزوہ خندق میں آپ نے کفار کا قصد کیا تھا۔( فتح الباری 348/7۔) دراصل غزوہ اس جہاد کو کہتے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شرکت کی ہو اور جس جہاد میں آپ نے شرکت نہ کی ہو اسے سریہ کہاجاتا ہے لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ غزوے اور سریے میں فرق نہیں کرتے۔یہی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کتاب المغازی میں سرایا اور بعوث کا ذکر بھی کیا ہے جبکہ عام محدثین اور اہل سیر غزوے اور سریے میں فرق کرتے ہیں اور یہی مشہور ومعروف ہے۔غزوات نبوی کی تعداد میں بہت سے اقوال ہیں۔سترہ سے ستائیس تک ان کی تعداد بتائی جاتی ہے۔ذیل میں ایک نقشہ دیاجاتا ہے جو آپ کے غزوات کی نشان دہی کرتا ہے ۔یہ نقشہ تاریخی کتب سے لیا گیا ہے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :غزوات اور سرایا کی مجموعی تعداد سو ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ راویوں کے مختلف اعتبارات ہیں۔بہت سے راوی مدینے سے شروع ہونے والے ایک سفر کوایک غزوہ شمار کرتے ہیں اگرچہ اس سفر میں کوئی ایک غزوات وقوع پذیر ہوجائیں،چنانچہ ان کے نزدیک فتح مکہ ،غزوہ طائف،غزوہ حنین اور غزوہ اوطاس ایک غزوہ ہیں کیونکہ ان کا سفر ایک ہے جبکہ دوسرے راویوں کے نزدیک جس میں لڑائی کی نوبت آئے وہ غزوہ شمار ہوگا اگرچہ وہ تھوڑی دیر کے لیے یہ کیوں نہ ہو۔اس قسم کا اختلاف نظریاتی ہےحقیقی نہیں۔( فتح الباری 350/7۔)ہم نے کتاب بدء الخلق کے آغاز میں لکھا تھا کہ کتاب المغازی کوئی الگ نوعیت کی مستقبل کتاب نہیں بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہی ایک حصہ ہے۔چونکہ اس کے ابواب بہت پھیلے ہوئے ہیں،اس لیے اسے الگ کتاب کا نام دیاگیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاسفر حجۃ الوداع ،آپ کے مرض اورآپ کی وفات کے ابواب بیان ہوئے ہیں کیونکہ یہ سب سیرت طیبہ کے احوال کا تکملہ ہے اور تاریخ کا حصہ ہیں جس کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بدء الخلق سے کیا ہے۔آپ نے اس بڑے عنوان کے تحت پانچ سوتریسٹھ(563) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھہتر(76) معلق اور باقی معصول ہیں۔ان میں چارسودس احادیث مکرراور باقی ایک سوتریپن(153) خالص ہیں۔تریسٹھ(63) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ احادیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بیان کیا ہے۔مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں تقریباً بیالیس(42) ایسے آثار بھی مروی ہیں جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین رحمۃ اللہ علیہ عظام نے بیان کیا ہے۔ان احادیث وآثار پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے 90 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی دقت فہم اور باریک بینی کاپتہ چلتا ہے ۔غزوات کے علاوہ بہت سے فقہی مسائل اوراسنادی اسرارورموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ضرورت کے مطابق تشریح کریں گے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ احادیث صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران میں ہماری معروضات کو ضرور مدنظر رکھیں اور ان احادیث کو اپنے علمی اضافے کے لیے نہیں بلکہ عملی کردار کو سنوارنے کے لیے پڑھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہواور قیامت کے دن ہمارے ساتھ اپنی رحمت وشفقت کابرتاؤ کرے۔آمین۔
تمہید باب
غزوہ اُحد میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد گرامی حضرت یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت انس کے چچا جناب نضر بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،اور مبلغ اسلام حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے واقعات گزشتہ احادیث میں بیان ہوچکے ہیں۔ان حضرات نے اپنے خون سے شجر اسلام کی آبیاری کی جو آج تناور اور ثمر آور کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
ان ہی میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب ، ابو حذیفہ الیمان ، انس بن نضر اور مصعب بن عمیر ؓ بھی تھے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب میرے والد گرامی شہید ہو گئے تو میں رونے لگا اور ان کے چہرے سے کپڑا ہٹانا چاہا تو نبی ﷺ کے صحابہ کرام ؓ نے مجھے ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ لیکن نبی ﷺ نے منع نہیں فرمایا۔ اور نبی ﷺ نے (آپ کی پھوپھی سے) فرمایا: ’’اس پر مت رو، یا فرمایا: کیوں روتی ہو؟ فرشتے برابر ان کی لاش پر اپنے پروں کا سایہ کیے ہوئے تھے، یہاں تک انہیں اٹھا لیا گیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کی طرف سے انھیں بہت عظمت سے نوازا گیا ہے۔ ان کی شہادت پررونے دھونے یا افسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔ 2۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ کو رونے سے منع نہیں فرمایا۔ لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ کی پھوپھی فاطمہ بنت عمرو ؓ کو رونے سے منع فرمایا۔ صحیح مسلم کی حدیث اس کی تائید کرتی ہے۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ میری پھوپھی حضرت فاطمہ ؓ رونے لگی تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے رونا نہیں چاہیے۔‘‘ (صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث:6355(2471) وفتح الباري:470/7) بلکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں میں بھی اس کی صراحت ہے۔ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث:1244) 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کے چہرے سے کفن ہٹانا جائز ہے بشرط یہ کہ فائدہ ہو بصورت دیگر خلاف اولیٰ ہے کیونکہ ایسا کرنے سے غم وحزن میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے خلاف اولیٰ ہونے پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا منع کرنا بھی دلالت کرتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کا اس نہی پر انکار نہ کرنا بھی اس کی دلیل ہے کہ بلاوجہ میت کا چہرہ نہ کھولا جائے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
ان میں سے حضرت حمزہ بن عبدالمطلب، حضرت یمان، حضرت انس بن نضر اور حضرت مصعب بن عمیر ؓ تھے۔
حدیث ترجمہ:
اور ابو الولید نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے ابن المنکدر نے، انہوں نے حضرت جابر ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میرے والد حضرت عبداللہ ؓ شہید کردیئے گئے تو میں رونے لگا اور بار بار ان کے چہرے سے کپڑا ہٹاتا۔ صحابہ مجھے روکتے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ نے نہیں روکا۔ (فاطمہ بنت عمر ؓ حضرت عبداللہ کی بہن بھی رونے لگیں) آنحضورﷺ نے ان سے فرمایا کہ روؤ مت۔ (آنحضور ﷺ نے لاتبکیه فرمایا ، یا ماتبکیه۔ راوی کو شک ہوگیا) فرشتے برابر ان کی لاش پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ ان کو اٹھا لیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
جنگ احد کے شہیدوں کے فضائل ومناقب کا کیا کہنا ہے۔ یہ اسلام کے وہ نامور فرزند ہیں جنہوں نے اپنے خون سے شجر اسلام کو پروان چڑھایا۔ اسلامی تاریخ قیامت تک ان پر نازاں رہے گی۔ ان میں سے دو دو کو ملا کر ایک ایک قبر میں دفن کیا گیا۔ حاجت نہیں ہے تیرے شہیدوں کو غسل کی ان کو بغیر کفن دفن کیا گیا تاکہ قیامت کے دن یہ محبت الہی کے کشتگاں اسی حالت میں عدالت عالیہ میں حاضر ہوں۔ سچ ہے: بناکر دند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را۔ میں انتہائی خوشی محسوس کرتا ہوں کہ مجھ کو عمر عزیز میں تین مرتبہ ان شہداء کے گنج شہیداں پر دعا ئے مسنونہ پڑھنے کے لیے حاضری کا موقع ملا۔ ہر حاضری پر واقعات ماضی یاد کرکے دل بھر آیا اور آج بھی جبکہ یہ سطریں لکھ رہا ہوں آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں ہے۔ اللہ پاک قیامت کے دن ان قطروں کو گناہوں کی نار دوزخ بجھانے کے لیے دریاؤں کا درجہ عطا فرمائے۔ وما ذالك علی اللہ بعزیز۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir added, "When my father was martyred, I started weeping and uncovering his face. The companions of the Prophet (ﷺ) stopped me from doing so but the Prophet (ﷺ) did not stop me. Then the Prophet (ﷺ) said, '(O Jabir.) don't weep over him, for the angels kept on covering him with their wings till his body was carried away (for burial)."