باب: مریض کا یوں کہنا کہ مجھے تکلیف ہے یا یوں کہناکہ ” ہائے میرا سر دکھ رہا ہے یا میری تکلیف بہت بڑھ گئی “
)
Sahi-Bukhari:
Patients
(Chapter: To say "I am sick," or "Oh, my head!" or "My ailment has been aggravated")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت ایوب ؑ کا یہ کہنا بھی اسی قبیل سے ہے کہ ” اے میرے رب ! مجھے سراسر تکالیف نے گھیر لیا ہے اور تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ‘‘
5668.
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ میری عیادت کے لیےہمارے ہاں تشریف لائے جبکہ حجتہ الوداع کے زمانے میں ایک سخت بیماری جس حد کو پہنچ چکی ہے اسے آپ دیکھ رہے ہیں۔ میں مالدار ہوں لیکن میری وارث صرف ایک لڑکی ہے کوئی اور دوسرا نہیں تو کیا میں دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے عرض کی: پھر آدھا مال صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: ایک تہائی کر دوں؟آپ ﷺ نے فرمایا: ”تہائی بہت کم ہے۔ اگر تم اپنےوارثوں کو غنی چھوڑ جاؤ تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔ تم اللہ کی خوشنودی کے لیے جو بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں ثواب ملے گا، یہاں تک کہ تمہیں اس لقمے پر بھی ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے۔“
تشریح:
(1) مسلمان، جب اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہو تو اس کا ہر کام باعث ثواب ہے۔ اس کا بیوی بچوں پر خرچ کرنا حتی کہ اس کا سونا اور آرام کرنا بھی نیکی ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی تکلیف کا اظہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا۔ یہ تسلیم و رضا کے منافی نہیں بلکہ صورت حال سے آگاہ کرنے اور اپنی مشکل کا حل تلاش کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ فرمایا۔ اگر شرعی طور پر ایسا کرنا منع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور انہیں روک دیتے، لیکن آپ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو اس کے متعلق کچھ نہیں کہا بلکہ پیش آنے والی مشکل کے متعلق مناسب رہنمائی فرمائی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5455
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5668
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5668
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5668
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے لیے بنائی ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کر کے اس کی عبادت میں مصروف رہے اور ان پر غوروفکر کر کے اس کی معرفت حاصل کرے، پھر جب وہ حد اعتدال سے گزر جاتا ہے تو مریض بن جاتا ہے۔ اگر کھانے پینے میں حد اعتدال سے آگے نکلا تو کئی جسمانی بیماریوں کا شکار ہو گا اور اگر غوروفکر کرنے میں افراط و تفریط میں مبتلا ہوا تو بے شمار روحانی امراض اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کی ہیں۔" (البقرۃ: 2/29) ان چیزوں میں جو مضر صحت تھیں یا جو انسانی غیرت و آبرو یا عقل کے لیے نقصان دہ تھیں انہیں حرام قرار دے کر باقی چیزیں انسان کے لیے حلال کر دیں۔ ان چیزوں کی کمی بیشی سے انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔اہل علم نے بیماری کی دو قسمیں ذکر کی ہیں: ٭ دل کی بیماریاں۔ ٭ جسم کی بیماریاں۔ دل کی بیماریوں کے دو سبب ہیں: ٭ شکوک و شبہات: اللہ تعالیٰ کی تعلیمات میں شکوک و شبہات سے نفاق اور کفر و عناد پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ان الفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے: "ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں بڑھا دیا ہے۔" (البقرۃ: 2/10) یہ نفاق اور کفر و عناد کی بیماری ہے جو شکوک و شبہات سے پیدا ہوتی ہے۔ ٭ شہوات و خواہشات: انسانیت سے نکل کر حیوانیت میں چلے جانا، شہوات کہلاتا ہے۔ ان سے جو بیماری پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کی بیماری ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔" (الاحزاب: 33/32) اس آیت کریمہ میں جس بیماری کا ذکر ہے وہ شہوات کی بیماری ہے۔ دل کی بیماریوں کا علاج اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسولوں کی تعلیمات سے ہو سکتا ہے کیونکہ ان بیماریوں کے اسباب و علاج کی معرفت صرف رسولوں کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس سلسلے میں وہی روحانی طبیب ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت، دلی بیماریوں کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت آ پہنچی ہے۔" (یونس: 10/57) بدن کی بیماریاں مزاج میں تبدیلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ انسانی مزاج چار چیزوں سے مرکب ہے: سردی، گرمی، خشکی اور رطوبت۔ جب ان میں کمی بیشی ہوتی ہے تو اس سے جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔فقہاء نے بیماریوں کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے: ٭ ایسی بیماری جو خطرناک نہیں ہوتی، جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: آنکھ کا دُکھنا یا معمولی سر درد اور ہلکا پھلکا بخار وغیرہ۔ ٭ ایسی بیماری جو دیر تک رہتی ہے، جیسے: فالج، تپ دق وغیرہ۔ اس قسم کی بیماری کے باوجود انسان صاحب فراش نہیں ہوتا بلکہ چلتا پھرتا رہتا ہے۔ ٭ خطرناک بیماری جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ ہو، جیسے: دماغ کی شریانوں کا پھٹ جانا یا انتڑیوں وغیرہ کا کٹ جانا۔ ایسی بیماری سے انسان جلد ہی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔ ٭ ایسی خطرناک بیماری جس سے جلد موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: دل کا بڑھ جانا یا جگر و گردوں کا خراب ہونا۔ پھر بیماری کے حوالے سے مریض کے متعلق احکام و مسائل اور حقوق و واجبات ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت بیماری اور بیماروں کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس (48) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے سات (7) معلق اور باقی اکتالیس (41) متصل سند سے مروی ہیں، پھر چونتیس (34) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ ان میں سے چار (4) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی تین (3) آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر بیماری اور مریض کے متعلق بائیس (22) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی قوت فہم اور دقت نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ بیماری گناہوں کا کفارہ ہے۔ ٭ بیماری کی شدت اور اس کی حیثیت۔ ٭ بیمار کی تیمارداری ضروری ہے۔ ٭ بے ہوش آدمی کی عیادت کرنا۔ ٭ عورتیں، مردوں کی عیادت کر سکتی ہیں۔ ٭ مشرک کی عیادت بھی جائز ہے۔ ٭ عیادت کے وقت کیا کہا جائے؟ ٭ مریض آدمی کا موت کی آرزو کرنا۔ ہم نے حسب توفیق و استطاعت ان احادیث پر تشریحی نوٹ بھی لکھیں ہیں۔ مطالعہ کے وقت انہیں پیش نظر رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رحمت والی بابرکت تندرستی کی نعمت عطا کرے اور ہر قسم کی بیماری سے محفوظ رکھے۔ آمین
تمہید باب
مریض اگر اپنے دکھ درد کا اظہار کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔ ایسا کرنا بے صبری میں داخل نہیں ہے کیونکہ ہر آدمی بیماری کے باعث تکلیف محسوس کرتا ہے اور بیماری کا شکوہ کرتا ہے، البتہ مذموم شکوہ وہ ہے جو لوگوں کے سامنے اظہار افسوس کے لیے اپنی بیماری کا ذکر کرتا ہے۔ ایسا کرنا تسلیم و رضا کے منافی ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کا یہ کہنا بھی منصب نبوت کے خلاف نہیں کیونکہ انہوں نے اپنے رب کے حضور بطور عاجزی دعا کی تھی، مخلوق سے اپنی بیماری کا شکوہ نہیں کیا تھا۔ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ ان صوفیاء کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو کہتے ہیں کہ مصائب و آلام کے دور ہونے کی دعا بھی تسلیم و وضا کے منافی ہے، اس لیے انہوں نے تنبیہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا مطالبہ کسی طرح بھی ممنوع نہیں۔
اور حضرت ایوب ؑ کا یہ کہنا بھی اسی قبیل سے ہے کہ ” اے میرے رب ! مجھے سراسر تکالیف نے گھیر لیا ہے اور تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ‘‘
حدیث ترجمہ:
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا رسول اللہ ﷺ میری عیادت کے لیےہمارے ہاں تشریف لائے جبکہ حجتہ الوداع کے زمانے میں ایک سخت بیماری جس حد کو پہنچ چکی ہے اسے آپ دیکھ رہے ہیں۔ میں مالدار ہوں لیکن میری وارث صرف ایک لڑکی ہے کوئی اور دوسرا نہیں تو کیا میں دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے عرض کی: پھر آدھا مال صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: ایک تہائی کر دوں؟آپ ﷺ نے فرمایا: ”تہائی بہت کم ہے۔ اگر تم اپنےوارثوں کو غنی چھوڑ جاؤ تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔ تم اللہ کی خوشنودی کے لیے جو بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں ثواب ملے گا، یہاں تک کہ تمہیں اس لقمے پر بھی ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) مسلمان، جب اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہو تو اس کا ہر کام باعث ثواب ہے۔ اس کا بیوی بچوں پر خرچ کرنا حتی کہ اس کا سونا اور آرام کرنا بھی نیکی ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی تکلیف کا اظہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا۔ یہ تسلیم و رضا کے منافی نہیں بلکہ صورت حال سے آگاہ کرنے اور اپنی مشکل کا حل تلاش کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ فرمایا۔ اگر شرعی طور پر ایسا کرنا منع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور انہیں روک دیتے، لیکن آپ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو اس کے متعلق کچھ نہیں کہا بلکہ پیش آنے والی مشکل کے متعلق مناسب رہنمائی فرمائی۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ایوب ؑ کا یہ کہنا: بے شک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ بن ابی سلمہ نے بیان کیا، کہا ہم کو زہری نے خبر دی، انہیں عامر بن سعد ابی وقاص نے اور ان سے ان کے والد نے کہ ہمارے یہاں رسول اللہ ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے میں حجۃ الوداع کے زمانہ میں ایک سخت بیماری میں مبتلا ہو گیا تھا میں نے عرض کیا کہ میری بیماری جس حد کو پہنچ چکی ہے اسے آنحضرت ﷺ دیکھ رہے ہیں، میں صاحب دولت ہوں اور میری وارث میری صرف ایک لڑکی کے سوا اور کوئی نہیں تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کروں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا پھر آدھا کر دوں، آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا ایک تہائی کر دوں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تہائی بہت کافی ہے اگر تم اپنے وارثوں کو غنی چھوڑ کر جاؤ یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں اور تم جو بھی خرچ کرو گے اور اس سے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا مقصود ہوگا اس پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔ یہاں تک کہ اس لقمہ پر بھی تمہیں ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو۔
حدیث حاشیہ:
مسلمان کا ہر کام جو نیک ہو ثواب ہی ثواب ہے ا س کا کاروبار کرنا بھی ثواب ہے اور بیوی و بچوں کو کھلانا پلانا بھی ثواب ہے ﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ (الأنعام : 162) کا یہی مطلب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sad (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) came to visit me during my ailment which had been aggravated during Hajjat-al-Wada'. I said to him, "You see how sick I am. I have much property but have no heir except my only daughter May I give two thirds of my property in charity?"! He said, "No." I said, "Half of it?" He said, "No." I said "One third?" He said, "One third is too much, for to leave your heirs rich is better than to leave them poor, begging of others. Nothing you spend seeking Allah's pleasure but you shall get a reward for it, even for what you put in the mouth of your wife."