باب: سورۃ فاتحہ سے دم جھاڑ کرنے میں ( بکریاں لینے کی ) شرط لگانا
)
Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: Conditions for doing Ruqya with Surat Al-Fatiha)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5737.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے چند صحابہ کرام چشمے پر رہنے والوں کے پاس سے گزرے۔ ان کے ہاں زہریلے کا کاٹا ہوا ایک شخص تھا۔ صحابہ کرام کے پاس ان کا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: کیا تم میں کوئی دم جھاڑ کرنے والا ہے؟ کیونکہ اس چشمے پر ایک آدمی کو کسی زہریلے جانور سے کاٹ لیا ہے۔ صحابہ کرام میں سے ایک آدمی اس کے ہمراہ گیا اور چند بکریاں لینے کی شرط پر سورہ فاتحہ سے دم کیا تو وہ تندرست ہوگیا۔ وہ صحابی بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو انہوں نے اسے اچھا خیال نہ کیا اور کہا کہ تو نے اللہ کی کتاب پڑھ کر اجرت لی ہے؟ آخر جب حضرات مدینہ طیبہ آئے تو انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اس شخص نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جن چیزوں کی تم اجرت لیتے ہو ان میں سب سے اجرت لینے کے قابل اللہ کی کتاب ہے۔“
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دم جھاڑ کرنے پر اجرت لینا جائز ہے بلکہ پہلے سے طے کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ لیکن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی احتیاط قابل ملاحظہ ہے کہ جب تک انہیں اس کے حلال یا جائز ہونے کا علم نہیں ہوا بکریوں کو ہاتھ نہیں لگایا، البتہ دم جھاڑ کے لیے فارغ ہو جانا اور اسے ذریعۂ معاش بنا لینا انتہائی مذموم ہے۔ یہ طریقہ سلف صالحین کے ہاں غیر معروف ہے اور یہ دم کرنے والے، کروانے والے کو برائی اور فساد کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ جس طرح کسی بزرگ سے دعا کروانا تو جائز ہے لیکن اس بزرگ کا اس کام کے لیے فارغ ہو کر بیٹھ رہنا تاکہ لوگ اس کے پاس آ کر دعا کرائیں درست نہیں۔ ایسا کرنے سے کئی ایک مفاسد کے جنم لینے کا اندیشہ ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5519
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5737
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5737
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5737
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے چند صحابہ کرام چشمے پر رہنے والوں کے پاس سے گزرے۔ ان کے ہاں زہریلے کا کاٹا ہوا ایک شخص تھا۔ صحابہ کرام کے پاس ان کا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: کیا تم میں کوئی دم جھاڑ کرنے والا ہے؟ کیونکہ اس چشمے پر ایک آدمی کو کسی زہریلے جانور سے کاٹ لیا ہے۔ صحابہ کرام میں سے ایک آدمی اس کے ہمراہ گیا اور چند بکریاں لینے کی شرط پر سورہ فاتحہ سے دم کیا تو وہ تندرست ہوگیا۔ وہ صحابی بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو انہوں نے اسے اچھا خیال نہ کیا اور کہا کہ تو نے اللہ کی کتاب پڑھ کر اجرت لی ہے؟ آخر جب حضرات مدینہ طیبہ آئے تو انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اس شخص نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جن چیزوں کی تم اجرت لیتے ہو ان میں سب سے اجرت لینے کے قابل اللہ کی کتاب ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دم جھاڑ کرنے پر اجرت لینا جائز ہے بلکہ پہلے سے طے کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ لیکن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی احتیاط قابل ملاحظہ ہے کہ جب تک انہیں اس کے حلال یا جائز ہونے کا علم نہیں ہوا بکریوں کو ہاتھ نہیں لگایا، البتہ دم جھاڑ کے لیے فارغ ہو جانا اور اسے ذریعۂ معاش بنا لینا انتہائی مذموم ہے۔ یہ طریقہ سلف صالحین کے ہاں غیر معروف ہے اور یہ دم کرنے والے، کروانے والے کو برائی اور فساد کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ جس طرح کسی بزرگ سے دعا کروانا تو جائز ہے لیکن اس بزرگ کا اس کام کے لیے فارغ ہو کر بیٹھ رہنا تاکہ لوگ اس کے پاس آ کر دعا کرائیں درست نہیں۔ ایسا کرنے سے کئی ایک مفاسد کے جنم لینے کا اندیشہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سیدان بن مضارب ابو محمد باہلی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو معشر یوسف بن یزید البراءنے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن اخلس ابو مالک نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے حضرت ابن عباس ؓ نے کہ چند صحابہ ایک پانی سے گزرے جس کے پاس کے قبیلہ میں بچھو کا کاٹا ہوا (لدیغ یا سلیم راوی کو ان دونوں الفاظ کے متعلق شبہ تھا) ایک شخص تھا۔ قبیلہ کا ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کیا آپ لوگوں میں کوئی دم جھاڑ کرنے والا ہے۔ ہمارے قبیلہ میں ایک شخص کو بچھو نے کاٹ لیا ہے چنانچہ صحابہ کی اس جماعت میں سے ایک صحابی اس شخص کے ساتھ گئے اور چند بکریوں کی شرط کے ساتھ اس شخص پر سورۃ فاتحہ پڑھی، اس سے وہ اچھا ہو گیا وہ صاحب شرط کے مطابق بکریاں اپنے ساتھیوں کے پاس لائے تو انہوں نے اسے قبول کرلینا پسند نہیں کیا اور کہا کہ اللہ کی کتاب پر تم نے اجرت لے لی۔ آخر جب سب لوگ مدینہ آئے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ (ﷺ)! ان صاحب نے اللہ کی کتاب پر اجرت لے لی ہے۔ آپ نے فرمایا جن چیزوں پر تم لے سکتے ہو ان میں سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہی ہے۔
حدیث حاشیہ:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احتیاط کو ملاحظہ کیا جائے کہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تحقیق نہ کی بکریوں کو ہاتھ نہیں لگایا ہر مسلمان کی یہی شان ہونی چاہیئے خاص طور پر دین وایمان کے لیے جس قدر احتیاط سے کام لیا جائے کم ہے مگر ایسا احتیاط کرنے والے آج عنقا ہیں الا ما شاءاللہ ۔ حضرت مولان وحیدالزماں فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی بنا پر تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کا مہر تعلیم قرآن پر کردیا تھا جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : Some of the companions of the Prophet (ﷺ) passed by some people staying at a place where there was water, and one of those people had been stung by a scorpion. A man from those staying near the water, came and said to the companions of the Prophet, "Is there anyone among you who can do Ruqya as near the water there is a person who has been stung by a scorpion." So one of the Prophet's companions went to him and recited Surat-al-Fatiha for a sheep as his fees. The patient got cured and the man brought the sheep to his companions who disliked that and said, "You have taken wages for reciting Allah's Book." When they arrived at Medina, they said, ' O Allah's Apostle (ﷺ) ! (This person) has taken wages for reciting Allah's Book" On that Allah's Apostle (ﷺ) said, "You are most entitled to take wages for doing a Ruqya with Allah's Book."