تشریح:
(1) جج اور حاکم کے لیے مشروع اور جائز ہے کہ وہ مقتول کے ورثاء کو، معاف کرنے کی ترغیب دیں، لیکن انھیں بذات خود کسی مجرم اور قاتل کو معاف کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر حاکم وقت یا فیصلہ کرنے والا جج از خود کسی قاتل کو، جرم ثابت ہونے کے باوجود معاف کرے گا تو یہ صریح ظلم اور عدل وانصاف کا خون کرنے کے مترادف ہوگا۔ ہمارے ہاں جو یہ رائج ہے کہ تمام قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد اعلیٰ عدالتوں سے سزائے موت پانے والے مجرموں کو معاف کرنے کا اختیار ”جناب صدر“ کے پاس ہے، یہ قطعاً غلط اور ناجائز ہے۔
(2) مجرم کو باندھنا جائز ہے بالخصوص جب اس کے فرار ہونے اور بھاگ جانے کا اندیشہ ہو۔
(3) ”تیرے اور مقتول کے گناہ“ یعنی اس معافی کے بدلے میں تیرے اور مقتول کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور تم دونوں جنتی بن جاؤ گے۔ مقتول اس لیے کہ وہ ظلماً مارا گیا اور مقتول کا ولی اس لیے کہ اس نے قاتل کی جان بخش دی۔ گویا ایک شخص کو زندگی دی۔ اور یہ بہت بڑی نیکی ہے۔ یہ معنیٰ بھی ہو سکتے ہیں کہ قاتل کو دوگناہ ہوں گے۔ مقتول کو قتل کرنے کا اور تجھے (مقتول کے اولیاء کو) صدمہ اور نقصان پہنچانے کا، لیکن پہلے معنیٰ زیادہ صحیح معلوم ہوتے ہیں۔ واللہ أعلم!
(4) مقتول کے ورثاء کو تین باتوں میں سے صرف ایک کا اختیار ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ قاتل کو معاف کر دیں، یہ سب سے بہتر، افضل اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اگر معاف نہیں کرتے تو پھر دیت، یعنی خون بہا لے لیں اور اسے چھوڑ دیں۔ یہ بھی بہتر ہے لیکن پہلے سے کم درجے کی نیکی ہے۔ اور تیسری اور آخری صورت قصاص میں قتل کرنا ہے۔ اس سے جس قدر بچ جائیں اتنا ہی بہتر ہے۔ اگر پہلی دونوں باتوں پر وہ آمادہ نہ ہوں تو پھر قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے گا اور بس۔
(5) رسول اللہ ﷺ کا مقتول کے وارث کو بار بار معاف کرنے کی تلقین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ معافی پسندیدہ اور محبوب عمل ہے، نیز رسول اللہ ﷺ کے بار بار معافی کا شوق دلانے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت اسلامیہ میں معاف کر دینا قصاص لینے سے بہتر ہے۔ اور مقتول کے اولیاء کو معافی کی رغبت دلانی چاہیے۔