تشریح:
(1) یہ تفصیلی روایت ہے جو احناف کی بیان کردہ تاویل کے خلاف ہے۔ کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو مؤذن مقرر فرما دیا جسے صحیح طور پر اذان سمجھ ہی میں نہ آئی تھی؟ چوں کفر از کعبہ پر خیز دکجا ماند مسلمانی۔
(2) کتب احادیث اور دیگر کتب فقہ میں جہاں بھی اذان کا بیان ہے، وہ ان کلمات ہی سے شروع ہوتی ہے۔ کہیں بھی آپ کو اذان کی ابتدا [الصلاة و السلام علیك یا سیدي یا رسول اللہ] سے نہیں ملے گی۔ ان خود ساختہ کلمات سے جو لوگ اذان کی ابتدا کرتے ہیں، وہ فرمان رسول اور صحابہ کے طریقے کی کھلم کھلی مخالفت کر رہے ہیں ایسے لوگوں کے بارے میں فرمان باری تعالیٰ ہے: (فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ) (النور ۶۳:۲۴) ”جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرنا چاہیے کہ انھیں (دنیا میں) کوئی مصیبت یا (قیامت میں) درد ناک عذاب نہ آ پہنچے۔“