تشریح:
(1) قرآن کی تلاوت اور اس پر عمل دونوں خوبیاں ہیں اور دونوں مطلوب ہیں۔ تلاوت ظاہری خوبی ہے جسے خوشبو سے تشبیہ دی گئی ہے اور عمل باطنی خوبی ہے کیونکہ اس میں ایمان، اخلاص، اللہ سے محبت، خشیت الہی اور تقویٰ جیسے باطنی اعمال بھی شامل ہیں، اس لیے اسے ذائقے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تلاوت کو خوشبو سے اس لیے تشبیہ دی گئی ہو کہ اسے ہر خاص و عام سن لیتا ہے جب کہ عمل کا اندازہ اسی کو ہوتا ہے جس کو واسطہ پڑے جس طرح ذائقے کا علم اسی کو ہوتا ہے جو پھل کو چکھے۔
(2) الْأُتْرُجَّة : (ترنجبین) لیموں کے خاندان سے تعلق رکھنے والا ایک پھل ہے۔ اس کا رنگ بھی خوش کن ہوتا ہے اور ذائقہ بھی عمدہ ہوتا ہے۔
(3) الرَّيْحَانَة: اصل میں ہر اس پودے کو کہتے ہیں جس سے خوشبو آئے، عام طور پر یہ لفظ نازبو کے لیے مستعمل ہے لیکن دوسرے خوشبودار پودوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
(4) منافق کا عقیدہ اور سیرت تلخ اور خراب ہوتی ہے مگر قراءت قرآن کی وجہ سے دوسروں کو فائدہ پہنچتا ہے اس لیے اس کی مثال ایسے پھول سے دی ہے جس کی خوشبو دور سے بھی محسوس ہے لیکن کھانے کے لائق ہرگز نہیں ہوتا۔