تشریح:
1۔ مال اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اس لئے اسے حلال ذرائع سے کمانا اور پھر جمع رکھنا کوئی معیوب نہیں، بشرط یہ کہ شرعی واجبات ادا کرتا رہے۔ مال جمع ہونے کی صورت میں ہی ایک مسلمان زکواۃ، حج، جہاد، قربانی، صدقہ، ورثہ اور وصیت جیسے احکام پر عمل پیرا ہوسکتا ہے۔ ورنہ مدات پرعمل محال ہوگا۔ اور جن آیات وحدیث میں مال جمع کرنے کی مذمت ہے۔ وہاں حرام مال کمانے شریعت کے تقاضے پورے نہ کرنے اور اس کا محض حریص بننے کی مذمت ہے۔
2۔ تہائی مال سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں۔
3۔ فقیروں کی نسبت وارثوں کا حق اولیٰ ہے۔ اور انہیں غنی چھوڑ جانا مستحب اور فقیرچھوڑ جانانا پسندیدہ ہے۔ سوائے اس کے کہ وہ توکل کے اعلیٰ مراتب پرہوں۔
4۔ واجب اخراجات اور تمام اعمال صالحہ جو راہ للہ کیے جایئں ان سب میں انسان کواجر وثواب ملتا ہے۔ اور درجات بلند ہوتے ہیں۔
5۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کی بشارت کے مطابق آپ کی رحلت کے بعد تقریبا چوالیس برس حیات رہے۔ اور عراق انہی کے ہاتھوں فتح ہوا۔ مشہور اور فیصلہ کن جنگ قادسیہ میں مسلمانوں کے کمانڈر آپ ہی تھے۔
6۔ اس وقت واجب تھا کہ جس علاقے کے مسلمانوں نے اللہ کے لئے ہجرت کی ہو وہاں قیام نہیں کرسکتے۔ اس لئے یہ بھی کوشش ہوتی تھی کہ سفر میں بھی وہاں موت نہ آئے۔ اور حضرت سعد بن خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مہاجر صحابی تھے۔ پہلے ہجرت حبشہ ثانیہ میں حبشہ گئے وہاں سے لوٹے اور غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ بالاخرحجۃ الوداع کے موقعہ پر مکہ میں فوت ہوئے۔