قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الإِجَارَةِ (بَابُ مَا يُعْطَى فِي الرُّقْيَةِ عَلَى أَحْيَاءِ العَرَبِ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: عَنِ النَّبِيِّﷺ: «أَحَقُّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ» وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: «لاَ يَشْتَرِطُ المُعَلِّمُ، إِلَّا أَنْ يُعْطَى شَيْئًا فَلْيَقْبَلْهُ» وَقَالَ الحَكَمُ: «لَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا كَرِهَ أَجْرَ المُعَلِّمِ» وَأَعْطَى الحَسَنُ دَرَاهِمَ عَشَرَةً وَلَمْ يَرَ ابْنُ سِيرِينَ بِأَجْرِ القَسَّامِ بَأْسًا وَقَالَ: كَانَ يُقَالُ: السُّحْتُ: الرِّشْوَةُ فِي الحُكْمِ، وَكَانُوا يُعْطَوْنَ عَلَى الخَرْصِ

2295. حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ انْطَلَقَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرُوهَا حَتَّى نَزَلُوا عَلَى حَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ فَاسْتَضَافُوهُمْ فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمْ فَلُدِغَ سَيِّدُ ذَلِكَ الْحَيِّ فَسَعَوْا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ شَيْءٌ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَوْ أَتَيْتُمْ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ نَزَلُوا لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَ بَعْضِهِمْ شَيْءٌ فَأَتَوْهُمْ فَقَالُوا يَا أَيُّهَا الرَّهْطُ إِنَّ سَيِّدَنَا لُدِغَ وَسَعَيْنَا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ فَهَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْكُمْ مِنْ شَيْءٍ فَقَالَ بَعْضُهُمْ نَعَمْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْقِي وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَقَدْ اسْتَضَفْنَاكُمْ فَلَمْ تُضَيِّفُونَا فَمَا أَنَا بِرَاقٍ لَكُمْ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا فَصَالَحُوهُمْ عَلَى قَطِيعٍ مِنْ الْغَنَمِ فَانْطَلَقَ يَتْفِلُ عَلَيْهِ وَيَقْرَأُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ فَكَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَانْطَلَقَ يَمْشِي وَمَا بِهِ قَلَبَةٌ قَالَ فَأَوْفَوْهُمْ جُعْلَهُمْ الَّذِي صَالَحُوهُمْ عَلَيْهِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ اقْسِمُوا فَقَالَ الَّذِي رَقَى لَا تَفْعَلُوا حَتَّى نَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَذْكُرَ لَهُ الَّذِي كَانَ فَنَنْظُرَ مَا يَأْمُرُنَا فَقَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا لَهُ فَقَالَ وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ ثُمَّ قَالَ قَدْ أَصَبْتُمْ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَقَالَ شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ سَمِعْتُ أَبَا الْمُتَوَكِّلِ بِهَذَا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اس کو خود امام بخاری نے طب میں وصل کیا ہے۔ جمہور علماءنے اس سے یہ دلیل لی ہے کہ تعلیم قرآن کی اجرت لینا درست ہے مگر حنفیہ نے اس کو ناجائز رکھا ہے۔ البتہ اگر دم کے طور پر اس کو پڑھے تو ان کے نزدیک بھی اجرت لے سکتا ہے، لیکن تعلیم کی نہیں لے سکتا کیوں کہ وہ عبادت ہے۔ ( فتح ) اور ابن عباس ؓ نے نبی کریم ﷺ سے بیان کیا کہ کتاب اللہ سب سے زیادہ مستحق ہے کہ تم اس پر اجرت حاصل کرو۔ اور شعبی نے کہا کہ قرآن پڑھانے والا پہلے سے طے نہ کرے۔ البتہ جو کچھ اسے بن مانگے دیا جائے لے لینا چاہئیے۔ اور حکم  نے کہا کہ میں نے کسی شخص سے یہ نہیں سنا کہ معلم کی اجرت کو اس نے ناپسند کیا ہو اور حسن  نے ( اپنے معلم کو ) دس درہم اجرت کے دیئے۔ اور ابن سیرین  نے قسام ( بیت المال کا ملازم جو تقسیم پر مقرر ہو ) کی اجرت کو برا نہیں سمجھا۔ اور وہ کہتے تھے کہ ( قرآن کی آیت میں ) سحت فیصلہ میں رشوت لینے کے معنی میں ہے اور لوگ ( اندازہ لگانے والوں کو ) انداز لگانے کی اجرت دیتے تھے۔ تشریح : حضرت ابن عباس ؓوالی روایت کو ابن ابی شیبہ نے وصل کیا ہے۔ حکم کے قول کو بغوی نے جعد یات میں وصل کیا ہے۔ اورحسن کے قول کو ابن سعد نے طبقات میں وصل کیا ہے اور ابن ابی شیبہ نے حسن سے نکالا کہ کتابت کی اجرت لینے میں قباحت نہیں ہے اور ابن سیرین کے قول کو ابن ابی شیبہ نے نکالا لیکن عبد بن حمید وغیرہ نے ابن سیرین سے اس کی کراہیت نقل کی اور ابن سعد نے ابن سیرین سے یوں نکالا کہ اجرت کی اگر شرط کرے تو مکروہ ہے ورنہ نہیں۔ اور اس روایت سے دونوں میں جمع ہو جاتا ہے۔ قرآن میں جس سحت کا ذکر ہے، وہ حرام ہے اس سے رشوت ہی مراد ہے اور ابن مسعود اور زید بن ثابت سے بھی سحت کی یہی تفسیر منقول ہے۔ ( وحیدی )

2295.

حضرت ابو سعید خدری  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ کے کچھ صحابہ کسی سفر پر روانہ ہوئے۔ جاتے جاتے انھوں نے عرب کے ایک قبیلے کے پاس پڑاؤکیا اور چاہا کہ اہل قبیلہ ان کی مہمانی کریں مگر انھوں نے اس سے صاف انکار کردیا۔ اسی دوران میں اس قبیلے کے سردارکو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا۔ ان لوگوں نے ہر قسم کا علاج کیا مگر کوئی تدبیر کار گر نہ ہوئی۔ کسی نے کہا: تم ان لوگوں کے پاس جاؤ جو یہاں پڑاؤ کیے ہوئے ہیں۔ شاید ان میں سے کسی کے پاس کوئی علاج ہو، چنانچہ وہ لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے لوگو!ہمارےسردار کو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا ہے اور ہم نے ہر قسم کی تدبیر کی ہے مگر کچھ فائدہ نہیں ہوا، کیا تم میں سے کسی کے پاس کوئی چیز (علاج) ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا: اللہ کی قسم! میں جھاڑ پھونک کرتا ہوں، لیکن واللہ !تم لوگوں سےہم نے اپنی مہمانی کی خواہش کی تھی تو تم نے اسے مسترد کردیا تھا، اب میں بھی تمھارے لیے جھاڑ پھونک نہیں کروں گا جب تک تم ہمارے لیے کوئی اجرت مقرر نہیں کروگے۔ آخر انھوں نےچند بکریوں کی اجرت پر ان کو راضی کر لیا۔ چنانچہ (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے) ایک آدمی گیااور سورہ فاتحہ پڑھ کردم کرنے لگا تو وہ شخص (ایسا صحت یاب ہوا) گویا اس کے بند کھول دیے گئے ہوں، پھر وہ اٹھ کر چلنے پھر نے لگا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسے کوئی بیماری تھی ہی نہیں۔ راوی کہتے ہیں۔ ان لوگوں نے ان کی مقررہ اجرت ان کے حوالے کردی تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپس میں کہنے لگے۔ اسے تقسیم کر لو۔ لیکن دم کرنے والے نے کہا: ابھی تقسیم نہ کروتاوقتیکہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں پہنچ کر اس واقعے کا تذکرہ کریں اور معلوم کریں کہ آپ ﷺ اس کے متعلق کیا حکم دیتے ہیں۔ چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے یہ واقعہ عرض کیا تو آپ نے فرمایا: ’’تمھیں کیسے معلوم ہوا کہ(سورہ فاتحہ)سے جھاڑ پھونک کی جاتی ہے؟‘‘ پھر فرمایا: ’’تم نے ٹھیک کیا۔ انھیں تقسیم کرلو، بلکہ اپنے ساتھ میرا حصہ بھی رکھو۔‘‘ یہ کہہ کر نبی ﷺ مسکرادیے۔ ابو عبد اللہ(امام بخاری ؒ) کہتے ہیں۔ حضرت شعبہ نے کہا کہ ہم سے ابو بشر نے بیان کیا، انھوں نے کہا: میں نےابو المتوکل سے یہ حدیث سنی ہے۔