تشریح:
(1) ”نہیں پاؤ گے“ نبی سے بڑھ کر کوئی انصاف کرنے والا نہیں ہو سکتا، چاہے وہ کتنا بھی انصاف پسند ہو۔
(2) ”سر منڈوانا“ سر منڈوانا اگرچہ جائز ہے اور حج میں مستحب ہے مگر کسی جائز چیز کو لازم کر لینا اور اسے شرعی مسئلہ سمجھ لینا اور اسے خواہ مخواہ مستحب بنا لینا قطعاً ناجائز ہے۔ وہ لوگ بھی سر مونڈنے کو اپنا شعار بنا لیں گے اور اسے لازم سمجھیں گے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے اسے صرف بطور علامت بیان فرمایا ہے۔ اس کی مذمت نہیں فرمائی کیونکہ اگر کسی جائز چیز کو مستقلاً اختیار کر لیا جائے مگر اسے شرعی مسئلہ اور افضل خیال نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ بسا اوقات انسان اپنی سہولت کے لیے ایک جائز چیز کو مستقلاً اختیار کر لیتا ہے، جیسے کوئی شخص ہمیشہ قمیص پہنے یا بند جوتا پہنے۔ ظاہر ہے اس میں کوئی قباحت نہیں اور اگر وہ کام افضل اور مستحب ہے تو پھر اس پر دوام بدرجۂ اولیٰ مستحب ہے، جیسے اشراق کی دو رکعتیں وغیرہ۔
(3) ”آخری گروہ“ گویا خوارج والی ذہنیت قیامت تک رہے گی۔
(4) ”مسیح دجال“ یعنی جھوٹا اور دغا باز مسیح۔ جس طرح ہم اب کسی مدعی نبوت کو جھوٹا نبی کہیں۔ چونکہ وہ مسیح ہونے کا دعویٰ کرے گا بلکہ اس وقت کے یہودی اسے ”مسیح“ تسلیم کر کے اس کی پیروی کریں گے۔ اب بھی یہودی مسیح کی آمد کے منتظر ہیں۔ (حالانکہ مسیح علیہ السلام تو کب کے آ چکے) اس لیے اسے مسیح دجال کہا گیا۔ دجال صفت کا صیغہ ہے، کسی کا نام یا لقب نہیں۔ اس کے معنیٰ ہیں: انتہائی دغا باز، جھوٹا اور فراڈی۔ گویا ان الفاظ سے اس کا مسیح ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ جھوٹا ہونا ثابت ہوتا ہے، جیسے ”جھوٹا نبی“ کہنے سے کسی کی نبوت ثابت نہیں ہوتی۔
(5) ”بدترین لوگ“ کیونکہ وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے۔ اور مسلمانوں کا قاتل بدترین جہنمی ہے۔