تشریح:
(1) اس مخالفت کی وضاحت یہ ہے کہ یہ حدیث بیان کرنے والے باقی تمام راوی یہ بیان کرتے ہیں کہ مقتول عبداللہ بن سہل ہیں جوکہ محیصہ کے چچا زاد بھائی ہیں جبکہ عمرو بن شعیب کہتے ہیں (جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے) کہ مقتول محیصہ کا چھوٹا بیٹا ہے، یعنی عبداللہ بن سہل مقتول نہیں۔ دوسری مخالفت یہ ہے کہ دیگر تمام راویوں کے برعکس انھوں نے یہ روایت اپنے پردادا حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے جبکہ تمام رواۃ نے حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بیان کی ہے۔ تیسری مخالفت یہ ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دیت یہودیوں پر تقسیم کر دی تھی اور ان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے نصف دیت، یعنی پچاس اونٹ اپنے ذمے لیے تھے جبکہ تمام راوی کہتے ہیں کہ پوری کی پوری دیت، یعنی سو اونٹ اور اونٹنیاں رسول اللہ نے اپنی طرف سے (بیت المال سے ) ادا فرمائی تھی۔ اس حدیث میں بیان کی گئی تفصیل درست نہیں بلکہ جو تفصیل دیگر راویوں نے بیان کی ہے وہی درست اور صحیح ہے۔ اس روایت میں صحیح روایات اور بہت سے ثقہ راویوں کی مخالفت کی گئی ہے، اس لیے یہ روایت شاذ، یعنی ضعیف ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دوسری روایات محفوظ، یعنی صحیح ہیں۔ واللہ أعلم۔
(2) گواہی کا ذکر صرف سعید بن عبید طائی کی روایت میں ہے۔ دیگر رواۃ نے گواہی کا ذکر نہیں کیا۔ تفصیلی روایات، جو کہ بخاری ومسلم کی ہیں، میں یہی ذکر ہے کہ آپ نے پہلے مدعین سے قسمیں اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ ان کے انکار پر مدعی علیہم سے قسموں کا مطالبہ کیا۔ اس لحاظ سے گواہی کا ذکر سعید بن عبید طائی کا شذوذ معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے [خَالَفَھُمْ سَعِیْدُ بْنُ عُبَیْدِ نِ الطَّائِیُّ] سے امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد اسی طرف اشارہ کرنا ہو۔