تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) بزرگ آدمی کو چاہیے کہ نوجوانوں سے شفقت کا سلوک کرے ۔
(2) نابینا ہونا حصول علم یا تعلیم و تبلیغ میں رکاوٹ نہیں۔
(3) بڑا کپڑا ہوتے ہوئے چھوٹے میں نماز پڑھنا جائز ہے۔
(4) مرد کے لیے نماز میں سر ڈھانکنا ضروری نہیں اگرچہ ڈھانکنے کے لیے کپڑا موجود ہوتاہم ننگے سر رہنے کواور اسی طرح ننگے سر نماز پڑھنے کو معمول بنا لینا نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اسوہ اور عمل کے خلاف ہے۔ عورت کے لیے سر چھپانا ضروری ہے۔ اگرچہ وہ گھر میں اکیلی نماز پڑ ھ رہی ہو۔
(5) رسول اللہﷺ کا عمل قرآن کی تشریح ہے۔ قرآن مجید میں حج کا حکم ہے۔ اس کی ادائیگی کا طریقہ رسول اللہ ﷺ کے ارشادات اور عمل سے معلوم ہوا۔
(6) مدینے والوں کا میقات ذوالحلیفہ ہے۔ اسے آج کل آبار علي یا بئر علي کہتے ہیں۔ مدینے سے حج یا عمرے کے لیے جانے والوں کو یہاں سے احرام باندھنا چاہیے،
(7) حیض و نفاس حج سے رکاوٹ کا باعث نہیں۔
(8) کپڑا باندھنے کا حکم اس لیے دیاکہ اس کے اندر روئی وغیرہ رکھ لی جائے تاکہ خون اس میں جذب ہوتا رہے۔ اور دوسرے کپڑے خراب نہ ہوں۔
(9) حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ مشہور صحابی خاتون ہیں۔ پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ ان کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے ان کے ہاں تین بیٹے پیدا ہوئے۔ حضرت جعفر 8ھ میں غزوہ موتہ میں شہید ہوگئے۔ تو حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ سے حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔13ھ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے نکاح میں آ گئیں۔ ان سے ان کے ہاں یحیٰ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔آپ ام المومنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہ کی ماں شریک بہن تھیں اور حضرت عباس ر ضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ ام الفضل رضی اللہ عنہ کی سگی بہن تھیں۔
(10) لبیک پکارتے وقت بہتر یہ ہے کہ وہی الفاظ پڑھے جائیں جو رسول اللہ ﷺ نے پڑھےتاہم دوسرے الفاظ بھی درست ہیں جن میں اللہ کی توحید اس کی طرف رغبت کا اظہار ہو۔
(11) طواف کی دو رکعتوں میں سورۃ الکفرون اور سورہ اخلاص پڑھنا مسنون ہے۔
(12) صفا اور مروہ پر ہر چکر میں کعبہ رخ ہو کر دعا مانگنا مسنون ہے۔
(13) حج مفرد کی نیت کو عمرے کی نیت میں تبدیل کرکے حج تمتع کرنا درست ہے۔
(14) جو شخص میقات سے قربانی کا جانور نہ لایا ہو اسے حج تمتع ادا کرنا چاہیے۔
(15) حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا جائز ہے۔
(16) ایک راوی سے حدیث سن کر مزید تاکید کے لیے دوسرے راوی یا استاد سے دریافت کرنا جائز ہے۔ جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے احرام کھولنے کا مسئلہ سن کر نبی اکرم ﷺ سے تصدیق چاہی۔
(17) حج تمتع کرنے والے کو عمرہ کرکے احرام کھولنا اور دوبارہ آٹھ ذوالحجہ کو حرام باندھنا چاہیے۔
(18) یہ احرام مکہ میں اپنی رہائش گاہ ہی سے باندھنا چاہیے۔ اس کے لیے میقات پر جانے کی ضرورت نہیں۔
(19) منی میں آٹھ ذو الحجہ کی ظہر سے نو ذوالحجہ کی فجر تک پانچ نمازیں ادا کرنی ہیں۔
(20) نو ذوالحجہ کو زوال سے پہلے نمرہ میں ٹھہرنا چاہیے۔ زوال کے بعد میدان عرفات میں داخل ہونا چاہیے۔
(21) زوال سے غروب آفتا ب کا وقت عرفات میں ٹھہرنے کا ہے۔ یہ حج کا اہم ترین رکن ہے۔
(22) جو شخص بروقت عرفات نہ پہنچ سکے وہ رات کو کسی وقت صبح صادق ہونے سے پہلے پہلے عرفات میں حاضر ہوجائے۔ اس کا بھی حج ہوجائے گا۔ دیکھیے۔: (سن ابن ماجة، حديث:3015)
(23) عرفات میں قبلہ رو کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر دعائیں مانگنا۔ اور ذکر الہی میں مشغول رہنا چاہیے۔
(24) عرفات سے سورج غروب ہونے کے بعد مغرب کی نماز پڑھے بغیر روانہ ہونا چاہیے۔
(25) مغرب کی نماز عشاء کے ساتھ ملا کر مزدلفہ میں ادا کرنا مسنون ہے۔ راستے میں مغرب کی نماز اد ا کرنا سنت کے خلاف ہے۔
(26) بعض لوگ مزدلفہ کی رات جاگتے اور نوافل پڑھتے ہیں اس رات سونا ہی سنت کا اتباع ہے۔ اور اصل ثواب سنت کی پیروی میں ہے۔ خلاف سنت محنت کرنے میں نہیں۔
(27) مزدلفہ میں فجر کی نماز کے بعد سورج نکلنے سے پہلے کافی روشنی ہوجانے تک ذکر ودعا میں مشغول رہنا چاہیے۔
(28) غلطی کرنے والے کو نرمی سے سمجھایا اور اس غلطی سے روکا جا سکتا ہے۔ ڈانٹ ڈپٹ سے ممکن حد تک اجتناب کرنا چاہیے۔
(29) جن مقامات میں کسی قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا ہووہاں جانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ایسے مقامات کو تفریح گاہیں سمجھ لینا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
(30) دس ذی الحجہ کو صرف برے جمرے کو رمی کرنی ہوتی ہے۔
(31) جمرے پر صرف سات کنکریاں مارنی چاہییں۔
(32) بڑی بڑی کنکریاں مارنا پتھر اور جوتے مارنا غلو ہے۔ جس سے شیطان خوش ہوتا ہے۔
(33) دس ذی الحجہ کے اعمال کی ترتیب یہ ہے: رمی، قربانی، حجامت اور طواف کعبہ۔ اگر یہ ترتیب قائم نہ رہ سکے تو کوئی دم یا فدیہ وغیرہ لازم نہیں آتا۔
(34) قربانی کی واجب مقدار ایک بھیڑ بکری نر ہویا مادہ یا گائے اور اونٹ کا ایک حصہ ہے۔ اس سے زیادہ جتنی طاقت ہوجانور قربانی کیے جا سکتے ہیں۔
(35) قربانی کا گوشت غریب مسکین لوگوں کا حق ہے۔ تاہم خود بھی کھانا مسنون ہے۔
(36) زمزم کا پانی پینا سنت اور ثواب ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وقد أخرجه هو وابن الجارود
بطوله) .
إسناده: حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي وعثمان بن أبي شيبة وهشام بن
عمار وسليمان بن عبد الرحمن الدمشقيان- وربما زاد بعضهم على بعض الكلمة
والشيء- قالوا: ثنا حاتم بن إسماعيل: ثنا جعفر بن محمد.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم؛ وقد أخرجه بطوله كما يأتي.
والحديث أخرجه البيهقي (5/7- 9) من طريق المصنف.
وأخرجه ابن الجارود (469) من طريق النفيلي وحده.
وابن ماجه (2/252- 258) من حديث هشام بن عمار وحده.
ومسلم (4/38- 43) ، والدارمي (2/44- 49) من طرق أخرى عن حاتم بن
إسماعيل... بطوله.
وأخرج النسائي وأحمد وغيرهما... أطرافاً منه. وقد خرجته بتوسع في الجزء
الذي كنت جمعته في حديث جابر هذا، مستوعباً طرقه وزياداته، وهو مطبوع.
الإرواء (1120)